کولمبیا کے صدر کے مطابق طیارے کی تباہی کے بعد جنگل میں لاپتہ ہو جانے والے چار بچے 40 دن بعد زندہ مل گئے ہیں۔
ملک کے صدر گستاوو پیترو نے اعلان کیا ہے کہ طیارے میں وہ چار بہن بھائی جو طیارے کے زمین پر گر کر تباہ ہو جانے کے بعد ایمازون کے برساتی جنگلات میں لاپتہ ہو گئے تھے، زندہ بچ گئے ہیں اور انہیں طبی امداد دی جا رہی ہے۔
پیترو نے ٹویٹ کیا کہ ’یہ پورے ملک کے لیے خوشی کی بات ہے۔ وہ چار بچے جو 40 دن قبل کولمبیا کے جنگل میں گم ہو گئے تھے، زندہ پائے گئے۔‘
صدر کا کہنا تھا کہ اکیلے ملنے والے بچے ’بقا کی علامت ہیں‘ انہوں نے پیشگوئی کی کہ ان کی کہانی ’تاریخ میں زندہ رہے گی۔‘
بچے، 13 سالہ لیسلی جیکبومبیئر میوکوتی، نو سالہ سولینی جیکبومبیئر میوکوتی، چار سالہ ٹائن نوریل رونوک میوکوتی اور 11 ماہ کے کرسٹن نیری من رونوک میکوتی سیسنا 206 قسم کے طیارے میں سفر کر رہے تھے جو یکم مئی کو صوبہ گوویئر میں گر کر تباہ ہو گیا۔
¡Una alegría para todo el país! Aparecieron con vida los 4 niños que estaban perdidos hace 40 días en la selva colombiana. pic.twitter.com/cvADdLbCpm
— Gustavo Petro (@petrogustavo) June 9, 2023
کولمبیا کی فضائیہ کے مطابق بچوں کی والدہ میگدالینا میوکوتی، طیارے کے پائلٹ، اور ایک اور مسافر اس حادثے میں جان سے گئے لیکن بچوں کا کہیں پتہ نہیں چل رہا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ابتدائی تلاش کے دنوں میں صدر پیترو نے اعلان کیا کہ بچوں کو ڈھونڈ لیا گیا ہے اور ان کی حالت ٹھیک ہے۔ لیکن چند گھنٹے کے بعد انہوں نے اپنا دعویٰ واپس لے لیا اور واضح کیا کہ فضائیہ اور مقامی لوگوں نے بچوں سے رابطہ قائم کیا ہے لیکن ان کا مقام نامعلوم ہے۔
میگدالینا اپنے بچوں کے ساتھ شوہر مینوئل رانوک سے ملنے اور ایک ساتھ نئی زندگی شروع کرنے کے لیے دارالحکومت بوگوٹا جا رہی تھیں۔
اخبار ایل تیئمپو کے مطابق رانوک جن کا تعلق ایک مقامی سیاسی رہنما کے ساتھ ہے پہلے اپنے خاندان کے ساتھ پورتو سبالو کے مخصوص مقامی علاقے میں رہتے تھے۔
علاقے میں سرگرام جرائم پیشہ گروہوں کی طرف سے دھمکیاں ملنے کے بعد انہیں اس علاقے سے پیدل فرار ہونا پڑا۔ رانوک نے جنگل کے راستے اپنا سفر مکمل کیا اور بالآخر بوگوتا پہنچ گئے۔
انہوں نے مبینہ طور پر ملازمت شروع کر دی اور ڈیڑھ ماہ تک پیسے بچائے تاکہ دور دراز کے علاقے سے اپنے خاندان کو کولمبیا کے دارالحکومت لانے کے اخراجات برداشت کر سکیں۔
حادثے کے بعد بچوں کے غائب ہونے کے 40 دنوں میں ان کی تلاش نے کولمبیا بھر کو اپنی گرفت میں لے لیا۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق مسٹر پیٹرو نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ جب بچے ملے تو وہ اکیلے تھے۔
یکم مئی کو پائلٹ اور چھ مسافروں کو لے جانے والے طیارے کا انجن خراب ہو گیا تھا جس کے بعد ایمرجنسی کا اعلان کر دیا گیا۔ طیارے کے ریڈار سے غائب ہونے کے بعد زندہ بچ جانے والوں کی تلاش شروع کر دی گئی۔
طیارہ دو ہفتے بعد 16 مئی کو برساتی جنگل میں ملا۔ طیارے میں سوار تین بالغوں کی باقیات مل گئی تھیں لیکن بچے وہاں موجود نہیں تھے۔
کولمبیا کی مسلح افواج نے 150 فوجیوں کو کتوں کے ساتھ علاقے میں بھیجا تاکہ بچوں کی تلاش کی جا سکے۔ مقامی قبائل کے درجنوں رضاکار بھی تلاش کی کوششوں میں شامل ہو گئے۔
جنگل اور دھند کی وجہ سے علاقے میں اچھی طرح سے دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اسی دوران ہیلی کاپٹروں میں سوار فوجیوں نے جنگل میں کھانے کے ڈبے پھینکے تاکہ وہ بچوں کو مل جائیں۔
رات کے وقت طیاروں نے زمینی عملے کی تلاش میں مدد کے لیے شعلے فائر کیے اور میگا فون کے ذریعے بچوں کی دادی نے انہیں ایک ہی جگہ پر رہنے کا مشورہ دیا۔
ایک موقعے پر بچوں کی لوکیشن کے بارے میں افواہیں سامنے آئیں اور مسٹر پیٹرو نے 18 مئی کو ٹویٹ کیا کہ وہ مل گئے ہیں، لیکن جلد ہی اس پیغام کو حذف کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ایک سرکاری ایجنسی نے غلط معلومات دی تھیں۔
یہ بچے اپنی ماں کے ساتھ ایمیزون کے ایک گاؤں اراکورا سے جنگل کے مضافات میں واقع ایک چھوٹے سے شہر سان ہوزے ڈیل گواویئر جا رہے تھے۔ یہ بچے ہوئیٹوتو کے لوگوں کا حصہ ہیں اور حکام کا کہنا ہے کہ سب سے بڑے بہن بھائیوں کو اس بات کی سمجھ بوجھ ہے کہ جنگل میں کیسے زندہ رہنا ہے۔
بچوں کی بازیابی کے بعد صدر نے جمعے کے روز کہا کہ کچھ عرصے تک انہیں لگتا تھا کہ انہیں خانہ بدوش قبائل میں سے ایک نے بچایا ہے جو اب بھی جنگل میں ایک جگہ سے دوسری جگہ تک نقلِ مکانی کرتے رہتے ہیں اور ان کا حکام کے ساتھ بہت کم تعلق رہتا ہے۔
تلاشی کارروائیوں کے دوران بچوں کے زندہ ہونے کے آثار دکھائی دیے، جن میں ان کے قدموں کے نشانات، بچے کی بوتل، ڈائپر اور پھل شامل تھے جن پر کسی انسان کی طرف سے کاٹنے کے نشانات تھے۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق پیٹرو کا کہنا تھا کہ ’جنگل نے انہیں بچا لیا، وہ جنگل کے بچے ہیں اور اب وہ کولمبیا کے بچے بھی ہیں۔‘
© The Independent