افغانستان: ایک ماہ میں بیوٹی سیلون بند کرنے کا حکم

اقوام متحدہ کے امدادی مشن یوناما نے کہا کہ یہ پابندی خواتین کے حقوق سلب کرنے کی ایک نئی کوشش ہے اور اس سے افغانستان کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

افغانستان میں حکمران طالبان حکومت کی جانب سے خواتین کے بیوٹی سیلون بند کرنے کے حکم کی وجہ سے تجارتی حلقوں کے مطابق ساٹھ ہزار خواتین کے بےروزگار ہونے کا خدشہ پیدا ہوا ہے۔

افغانستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ایک عہدیدار نے بی بی سی پشتو کو بتایا کہ طالبان حکومت کے فیصلے کی وجہ سے ملک بھر میں لگ بھگ 60 ہزار خواتین بے روزگار ہو جائیں گی۔ سرکاری حکم کے مطابق تمام سیلونز کو ایک ماہ کے اندر اپنا کاروبار بند کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

اس اہلکار نے، جو سکیورٹی خدشات کی وجہ سے اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا، مزید کہا کہ دارالحکومت کابل میں خواتین کے تین ہزار سے زائد جب کہ پورے ملک میں بارہ ہزار بیوٹی سیلون ہیں، جن میں سے ہر ایک میں اوسطاً پانچ خواتین کام کرتی ہیں۔

اس عہدیدار نے بی بی سی کے مطابق بتایا کہ طالبان کی حکومت میں عوامی امور کی وزارت نے بھی انہیں زبانی طور پر تنبیہ کی ہے کہ وہ سیلون پر پابندی کے بارے میں میڈیا سے بات نہ کریں۔

اسی دوران افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن یوناما نے کہا کہ یہ پابندی خواتین کے حقوق پر ایک نئی کوشش ہے اور اس سے افغانستان کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

یوناما نے مزید کہا کہ یہ فیصلہ خواتین کے کاروبار کی حمایت کے اعلان سے متصادم ہے۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے سیاسی مشن نے حکمراں حکام سے کہا ہے کہ وہ اس حوالے سے اپنا فیصلہ واپس لیں۔

کابل کے ایک پارلر کے منیجر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ 'میرے خیال میں یہ اچھا ہوتا اگر اس معاشرے میں خواتین موجود ہی نہ ہوتیں۔ میں اب یہ کہہ رہا ہوں: کاش میرا وجود ہی نہ ہوتا۔ کاش ہم افغانستان میں پیدا نہ ہوتے یا افغانستان سے نہ ہوتے۔‘

وزارت برائے فروغ نیکی اور برائی کی روک تھام کے ترجمان محمد صادق عاکف مہاجر نے یہ نہیں بتایا کہ یہ حکم کیوں دیا گیا۔ انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ’ایک بار جب وہ بند ہو جائیں گے تو ہم اس کی وجہ میڈیا کے ساتھ شیئر کریں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ کاروباری اداروں کو اپنے معاملات بند کرنے کے لیے وقت دیا گیا ہے تاکہ وہ نقصان اٹھائے بغیر اپنے سٹاک کو استعمال کرسکیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اس حکم نامے کی ایک کاپی دیکھی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ حکم سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ کی زبانی ہدایات پر مبنی ہے۔طالبان کے پہلے دور حکومت میں بھی دارالحکومت کابل اور کئی دوسرے شہروں میں سیلون بند کر دیے گئے تھے لیکن 2001 میں ان کے زوال کے بعد انہیں دوبارہ فعال کر دیا گیا۔

اگرچہ اگست 2021 میں افغانستان پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے بعد طالبان نے خواتین کے بیوٹی سیلون کو چلنے دیا تھا، لیکن ان سیلونز کی کھڑکیوں پر بنائے گئے خواتین کے چہروں کو چھپانے کے لیے پینٹ لگا دیا گیا تھا۔

طالبان کی حکومت نے پہلے ہی لڑکیوں کے چھٹی جماعت سے اوپر کی تعلیم پر پابندی عائد کر رکھی ہے، ان پر سٹیڈیم اور پارکوں میں جانے پر پابندی عائد کر دی ہے اور حال ہی میں انہیں اقوام متحدہ کے دفاتر میں کام کرنے سے بھی منع کر دیا ہے۔

لیکن ان تمام پابندیوں کے باوجود طالبان حکومت کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وہ اسلامی شریعت کے دائرہ کار میں خواتین کو حقوق دینے کے لیے پرعزم ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چند روز قبل عید کے موقع پر طالبان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ نے اپنے ایک پیغام میں دعویٰ کیا تھا کہ ان کے نظام میں خواتین کو تمام حقوق دیے گئے ہیں اور افغانستان نے پہلی بار اس کی جدید تاریخ میں معاشی خود کفالت حاصل کر لی ہے۔

طالبان کے رہنما کے پیغام میں، جو 25 جون اتوار کو ’جنرل ڈائریکٹوریٹ آف دی آفس آف پرائم منسٹر‘ کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شائع ہوا، کہا گیا ہے کہ طالبان کے آنے کے ساتھ حکمران افغان خواتین کے ساتھ ہونے والے عام جبر سے نمٹنے اور حجاب اور عفت کی اصلاح کے لیے اقدام کریں گے، انہیں معاشرے کے نصف جسم کی طرح آزمایا گیا ہے۔

ملا ہیبت اللہ سے منسوب اس پیغام میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’حجاب نہ پہننے اور 20 سال کے قبضے کے دوران خواتین کی گمراہی کے منفی اثرات ختم ہونے والے ہیں۔ خواتین کے حقوق کے حوالے سے چھ شقوں پر مشتمل حکم نامہ جاری کر کے ایک آزاد اور باوقار انسان کی حیثیت سے ان کے وقار کو بحال کیا گیا اور شادی، وراثت اور دیگر معاملات میں ان کے حقوق کا احترام کیا گیا اور تمام محکمے خواتین کی مدد کے پابند ہیں۔‘

اپنے عیدالاضحیٰ کے مبارک پیغام میں طالبان گروپ کے سربراہ نے افغانستان کی معاشی صورت حال کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ ملک اپنی جدید تاریخ میں پہلی بار اقتصادی خود کفالت تک پہنچ گیا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ افغانستان کی اقتصادی تباہی اور اس ملک میں ملک گیر بحران کے بارے میں تمام پیش گوئیاں غلط نکلیں۔

امریکی قیادت والی افواج کے ملک پر قبضے کے 20 سالوں میں کابل اور دیگر شہروں میں بیوٹی پارلرز کی بھرمار ہوئی۔

انہیں مردوں سے دور جمع ہونے اور میل جول کرنے کے لیے ایک محفوظ جگہ کے طور پر دیکھا جاتا تھا اور خواتین کے لیے اہم کاروباری مواقع فراہم کرتے تھے۔

سیلون کی ایک ملازم نے بتایا، جس نے اپنی شناخت نیلاب کے طور پر کی کہ ’عورتیں گپ شپ کرتی تھیں۔ یہاں کوئی لڑائی نہیں تھی، کوئی شور نہیں تھا۔‘

سیلون کی ایک اور منیجر نے بتایا کہ انہوں نے 25 خواتین کو ملازمت دی جو سبھی اپنے کنبوں کے لیے کمانے والی تھیں۔ ’ان سبھی کا دل ٹوٹ چکا ہے... انہیں کیا کرنا چاہیے؟‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دفتر