رواں ہفتے مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر جنین میں اسرائیل کی فورسز کی جانب سے بڑے پیمانے پر آپریشن کے دوران 12 فلسطینیوں کی اموات ہوچکی ہیں، لیکن علاقے میں کشیدگی اب بھی برقرار ہے۔
گذشتہ سال کے آخر میں وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے تشدد میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ جھڑپیں زیادہ تر شمالی مغربی کنارے میں ہوئی ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے میں جمعرات کو ایک بستی کے قریب ایک مسلح شخص نے اسرائیلی فوجی کو گولی مار دی جس سے وہ چل بسا۔
22 سالہ شیلو یوسف عامر ایک ہفتے کے اندر مرنے والے دوسرے اسرائیلی فوجی ہیں۔
فوج نے ایک بیان میں کہا کہ حملہ آور کو بعد میں اسرائیلی فورسز نے ’نیوٹرلائز‘ کر دیا۔ فلسطین کے حکام فوری طور پر اس حوالے سے تصدیق نہیں کر سکے۔
اس سے قبل بیان میں کہا گیا تھا کہ یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا جب اسرائیلی فورسز نے ایک مشکوک گاڑی کو معائنے کے لیے روکا۔
اسرائیلی فوجی کی موت کی ذمہ داری غزہ کے کوسٹل انکلیو پر حکومت کرنے والے فلسطینی گروپ حماس کے مسلح ونگ عزالدین القسام بریگیڈ نے قبول کی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گروپ نے اپنے بیان میں اسے قابض اسرائیل کی جارحیت اور جنین کیمپ میں فلسطینیوں کے خلاف کارروائی کا ’فوری جواب‘ قرار دیا گیا۔
حالیہ دنوں میں اسرائیل نے جنین پناہ گزین کیمپ کو بکتر بند گاڑیوں، فوج کے بلڈوزر، ہیلی کاپٹروں اور ڈرون کی مدد سے نشانہ بنایا، جسے مقبوضہ مغربی کنارے میں تقریباً 20 سال بعد اسرائیل کی سب سے بڑی فوجی کارروائی قرار دیا گیا۔
اسرائیلی حملوں کا نشانہ بننے والا یہ کیمپ 70 سال قبل 1948 کی جنگ کے بعد پناہ گزینوں کے لیے قائم کیا گیا تھا، جو اسرائیل کے مطابق حماس، اسلامی جہاد اور فتح سمیت دیگر فسلطینی گروپوں کا مرکز ہے۔
اسرائیل نے 1967 کی چھ روزہ جنگ کے بعد سے مغربی کنارے پر قبضہ کر رکھا ہے اور یہاں بہت سی بستیاں تعمیر کی ہیں، جنہیں بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی سمجھا جاتا ہے۔
الحاق شدہ مشرقی بیت المقدس کو چھوڑ کر مغربی کنارے میں تقریباً 490،000 اسرائیلی شہری ان بستیوں میں رہتے ہیں۔
فلسطینی چاہتے ہیں کہ اسرائیل 1967 میں قبضے میں لی گئی تمام زمینوں سے دستبردار ہو جائے اور تمام یہودی بستیوں کو ختم کر دے۔