سیاسی دیدہ دلیری اور بیچاری عوام

اگر چند ہفتوں پہلے تک اقتدار میں رہنے والی سیاسی جماعت کا کوئی لیڈر بجلی سستی کرنے کے طریقے بتائے تو قصور اس کا نہیں بلکہ ہمارا ہے جنہوں نے اسے موقع دیا کہ وہ حکومت میں بڑا عہدہ سنبھالے۔

جماعت اسلامی کی خواتین کارکن کراچی میں 31 اگست، 2023 کو بجلی کے مہنگے بلوں کے خلاف احتجاج میں شریک ہیں (اے ایف پی/ رضوان تبسم)

پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، مہنگا ہوتا پیٹرول اور بجلی کے اتنے بل کہ لوگ خود کشیوں پر اتر آئیں یا پھر سڑکوں پر نکل آئیں۔

اس حوالے سے اگر کوئی تجزیہ کار یا عام شخص یہ کہے کہ لائن لاسز اور مفت بجلی دیے جانے کا بوجھ عوام اٹھاتی ہے تو سمجھ میں آتا ہے۔

اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ وہ عام آدمی یا ماہر معشیات یا تجزیہ کار حکومت میں نہیں ہوتا۔ وہ اس پوزیشن پر نہیں ہوتا کہ وہ اس نظام کی درستگی کے لیے اقداماٹھا سکے۔

چنانچہ اس کے پاس ایک ہی طریقہ ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا، اخبارات یا ٹی وی چینلز پر آ کر اس بات کو اجاگر کرے اور حل بتائے۔

لیکن اگر یہی بات بڑی سیاسی جماعت کا بڑا لیڈر کرے اور اُس سیاسی جماعت کا بڑا لیڈر کرے جو چند ہفتوں پہلے اقتدار میں تھی تو قصور اس کا نہیں بلکہ ہمارا ہے جنہوں نے ان کو یہ موقع دیا کہ وہ حکومت میں بڑے منصب پر بیٹھے۔

چند روز قبل اگر نگران وزیر اعظم، جن کے وزیر اعظم بننے میں ہمارا کوئی قصور نہیں، بجلی کی ہوش ربا بلوں کو یہ کہہ کر نظر انداز کر دے کہ یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں اور اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔

اگر یہ کافی نہیں تو پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک ٹی وی چینل اور پھر ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنی ایک پوسٹ میں یہ تاثر دیا کہ ان کی حکومت ٹیکس نہ دینے والوں کے سامنے لاچار ہوتی ہے۔ ان ٹیکس چوروں کے سامنے لاچار تھی جن کو حکومت عزت سے نان فائلر کہتی ہے۔

خواجہ آصف نے پوسٹ میں بتایا کہ پچھلے سال چار ہزار ارب روپے کی بجلی سپلائی یا بیچی گئی۔ اس میں سے تین ہزار ارب روپے کی ادائیگی ہوئی اور ایک ہزار ارب روپے کی چوری ہوئی جس کا بوجھ عام لوگوں پر ڈالا گیا۔ 

پھر ایک اور پوسٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ’وطن عزیز میں ریٹیل سیکٹر صرف 20 ارب روپے ٹیکس ادا کرتا ہے۔ اگر ٹھیک ٹیکس ادا کیا جائے تو وہ تقریباً 2880 ارب روپے بنتا ہے۔

’ہمارا ریٹیل سیکٹر کاروبار دوپہر کو مارکیٹیں کھول کر کرتا ہے اور آدھی رات تک مارکیٹیں کھلی ہوتی ہیں۔ اللہ کی عطا کردہ روشنی ضائع کی جاتی ھے اور مہنگی بجلی استعمال کی جاتی ھے۔

’سارے پاکستان میں سب سے زیادہ بجلی چوری مارکیٹوں میں ہوتی ہے یعنی 50 سے 80فیصد تک۔

’یہ چوری بجلی کے محکمہ کے ساتھ مل کر کی جاتی ہے۔ اس چوری کا بوجھ عام آدمی اٹھاتا ہے اور چوری کی بجلی کی قیمت غریب صارف ادا کرتا ہے۔‘

مجھے ان دونوں پوسٹوں میں ایک بات کی سمجھ نہیں آئی کہ وہ حکومت میں تھے تو انہوں نے عام آدمی کے لیے کیا کیا؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ سوال صرف ان سے نہیں بلکہ پردے کے سامنے اور پردے کے پیچھے جو جو بھی حکومت میں رہا ان سے ہے۔

ارتقائی ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ہمارا دماغ پتھر کے زمانے سے اب تک زیادہ تبدیل نہیں ہوا۔

ہم اب بھی پتھر کے زمانے میں طاقت ور اور پراعتماد شکاری کے پیچھے چلنے کے قائل ہیں۔

زمانہ بہت بدل چکا ہے اور یہ اپروچ اب کارآمد حکمت عملی نہیں۔ ارتقائی ماہرین نفسیات کا یہ تجزیہ صرف ہم پاکستانیوں ہی پر لاگو نہیں ہوتا بلکہ یہ عالمی سطح کا ہے۔

لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ دیگر معاشروں نے اپنا نظام بنایا اور اس کو مسلسل بہتر کرتے گئے جب کہ پاکستان میں کوئی سسٹم بنایا ہی نہیں گیا اور نہ ہی بنانے کی کوشش کی گئی۔

اور جو تھوڑا بہت بنا ہوا تھا وہ بھی اب آخری سانسیں لے رہا ہے۔ بہتر سسٹم نااہل لوگوں کے حکومت میں آنے کو سست کر دیتا ہے لیکن ایک بدحال سسٹم ان لوگوں کے آنے کی رفتار کو اور زیادہ تیز کر دیتا ہے۔

ایسا نہیں کہ دیگر ممالک میں ہر بڑی کرسی پر بیٹھنے والے فرشتے ہوتے ہیں لیکن ان کا سسٹم ایسا بن چکا ہے کہ اس کے باعث ایسے افراد کا سسٹم میں داخل ہونا محدود ہو جاتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ