قاضی فائزعیسیٰ نظام انصاف کو ’ڈی کالونائز‘ کر سکیں گے؟

جنگ آزادی 1857 کے فوری بعد متعارف کرائے جانے والے اس نظامِ قانون کا مقصد یہ تھا کہ رعایا کبھی آئندہ سر اٹھانے کی کوشش نہ کرے۔ قاضی فائز عیسیٰ چاہیں تو اس میں تبدیلی کی کوشش کر سکتے ہیں۔

قاضی فائز عیسیٰ پاکستان کے اگلے چیف جسٹس ہوں گے (سپریم کورٹ آف پاکستان ویب سائٹ)

پاکستان کا نظام انصاف نو آبادیاتی غلامی کی جورسپروڈنس، قانون اور روایات کے ہاتھوں گھائل ہوا پڑا ہے، سوال یہ ہے کیا قاضی فائزعیسیٰ بطور چیف جسٹس اسے ’ڈی کالونائز‘ کر پائیں گے؟

یہ کام، بنیادی طور پر کسی فرد واحد کا نہیں، پارلیمان کا ہے۔ 13 ماہ کی قلیل مدت میں کسی چیف جسٹس سے کچھ زیادہ توقعات وابستہ کر لینا بھی مناسب نہیں، تاہم اس کے باوجود دل امید کی ڈوری سے بندھا ہے کہ کوئی اس کام کو پایہ تکمیل تک بھلے نہ پہنچا سکے، اس کا نقش اول تو بن ہی سکتا ہے۔ سماج کو تو مرہم کی حاجت ہے، ابن مریم نہ سہی کوئی ’ابن عیسیٰ‘ ہی سہی!

پاکستان کا قانون، نظام انصاف اور فلسفہ قانون، جوہری طور پر نو آبادیاتی ہے۔ ہم آج تک اپنے ’نظریہ ضرورت‘ کے علاوہ کوئی مقامی جورسپروڈنس تشکیل نہیں دے سکے۔ ہمارا قانون، ہمارا فلسفہ قانون، ہمارا نظام انصاف سب کچھ وکٹوریائی تصور کائنات کا اسیر ہے۔

جنگ آزادی 1857 کے فوری بعد متعارف کرایا جانے والا یہ نظامِ قانون و انصاف، شہریوں کے لیے نہییں رعایا کے لیے تھا۔ اس کا مقصد انصاف کی فراہمی نہ تھی، اس کا مقصد یہ تھا کہ رعایا کبھی آئندہ سر اٹھانے کی کوشش نہ کرے۔ یہ قانون ہم نے نہیں بنایا تھا، مسلط کیا گیا تھا۔ یہ قانون ہماری زبان میں نہیں تھا، اجنبی زبان میں تھا۔

 چنانچہ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ آج رول آف لا کے باب میں ہم دنیا میں 130 ویں نمبر پر کھڑے ہیں اور خود جناب قاضی فائز عیسیٰ وکلا کے ملک گیر اجتماع سے سوال پوچھتے ہیں کہ کوئی ہے جو اس نظام انصاف سے مطمئن ہو، تو کوئی ایک وکیل بھی ہاتھ کھڑا نہیں کرتا۔

اس نو آبادیاتی جورسپرووڈنس کے ہوتے ہوئے قانون کی حکمرانی ممکن نہیں۔ یہ کسی کو اس کے جرم پر سزا نہیں دیتا بلکہ جس کو سزا دینا مقصود ہو یہ اس کا جرم تلاش کر لیتا ہے۔ اس نظام انصاف کو ڈی کالونائز کرنا ہو گا۔

اگرچہ یہ کام چیف جسٹس کا نہیں، پارلیمان کا ہے تاہم چونکہ عدالت کے پاس قانون کی شرح اور تعبیر کے غیر معمولی اختیارات ہیں اس لیے امید کی ڈوری جب دل کو کھینچتی ہے تو وہ صرف پارلیمان ہی کو نہیں دیکھتا، نگاہ طلب سپریم کورٹ کی جانب بھی اٹھ جاتی ہے۔

یہ میرے جیسے صف نعلین میں کھڑے طالب علم کا منصب نہیں کہ وہ نامزد چیف جسٹس کو مشورہ دے، طالب علم البتہ امید کی اس ڈوری کی کہانی لکھ سکتا ہے جو دل کو کھینچتی ہے۔ یہی امید سرگوشی کرتی ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ چاہیں تو بہت کچھ کر سکتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کچھ کام ایسے ہیں جو علامتی ہیں، جن کا تعلق تہذیب و ثقافت سے ہے اور جو لاشعور میں پڑی نو آبادیاتی گرہ کھول سکتے ہیں اور کچھ معاملات قانون اور آئین کی شرح کے ہیں جو نہ صرف ہماری سمت درست کر سکتے ہیں بلکہ ہمیں وکٹوریائی تصور کائنات سے آزاد کر کے مقامی جورسپروڈنس کی تشکیل میں معاون ہو سکتے ہیں۔

وہ کیا ہیں؟ میں مختصرا عرض کیے دیتا ہوں۔

پہلی نو آبادیاتی گرہ زبان کی ہے۔ آئین اور قانون انگریزی میں ہے، عدالت کی کارروائی انگریزی میں ہوتی ہے، عدالت اپنے فیصلے انگریزی میں لکھتی ہے۔ سوال یہ ہے کیا پاکستان کے شہریوں کا یہ بنیادی انسانی حق نہیں کہ انہیں ان کا قانون ان کی زبان میں لکھ کر دیا جائے تاکہ وہ اس سے آگاہ ہوں، عدالت کی کارروائی کو سمجھ سکیں اور فیصلوں کو آسانی سے پڑھ سکیں؟

اجنبی زبان میں قانون لکھ کر یہ قرار دینا کہ ’قانون سے ناواقفیت کوئی عذر نہیں‘ کیا انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہے؟

نو آبادیاتی دور غلامی میں تو اس مشق کی سمجھ آتی تھی کہ انگریز کے نزدیک مقامی لوگ اور ان کی تہذیب حقیر تھی اور نو آبادیاتی بندوبست انہیں ’تہذیب‘ سکھانے آیا تھا لیکن ابھی تک اسی پر اصرار کی حکمت نا قابل فہم ہے۔ قاضی صاحب یہ گرہ ایک انتظامی فیصلے سے کھول سکتے ہیں۔ اس کے لیے کسی قانون سازی کی ضرورت نہیں۔

دوسری نو آبادیاتی گرہ کا تعلق لباس سے ہے۔ ہمارے جج صاحبان انگریزی لباس پہنتے ہیں اور پیچھے کھڑے خدام ادب کو قومی لباس، اچکن اور جناح کیپ پہنائی جاتی ہے۔ یہ انتظام ایک تہذیبی سوال ہے۔ لباس کوئی سا بھی ہو، پہن لینے میں قباحت نہیں تاہم جب مقامی تہذیب کی علامات کی تذلیل کا عنصر نمایاں ہونے لگے تو یہ تکلیف دہ بات ہے۔

اس رویے کی جڑیں بھی نو آبادیاتی دور غلامی میں ہیں۔ انگریز نے ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد مسلم تہذیب و ثقافت کی توہین اور تذلیل کو بطور پالیسی اختیار کیا اور 1857 کی جنگ آزادی کو کچلنے کے بعد اس نے اس پالیسی کو پوری شدت سے نافذ کیا۔ مسلمانوں کی تہذیبی علامتوں کو رسوا کیا گیا۔ مسلم اشرافیہ کا لباس نوکروں اور خادموں کے لیے مختص کر دیا گیا۔

قاضی فائز عیسیٰ اپنی تہذیب کی بے توقیری کی یہ رسم ایک حکم سے ختم کر سکتے ہیں۔ وہ چاہیں تو اپنی تقریب حلف برداری میں قومی لباس اور جناح کیپ میں جا سکتے ہیں اور چاہیں تو گاہے اسی لباس میں عدالت بھی تشریف لے جا سکتے ہیں۔ وہ یہ بھی کر سکتے ہیں کہ خدام ادب کا ڈریس کوڈ بدل کر انہیں بھی کبھی پینٹ کوٹ پہنا دیں تا کہ لباس کی بنیاد پر یہ امتیازی بندوبست ختم ہو سکے۔

کوئین میری کے سوگ میں ایک روز وکلا نے بادشاہ کے حکم پر سیاہ لباس پہنا تھا۔ ہمارے وکلا جون کی گرمی اور اگست کے حبس میں اپنے موسمی تقاضوں سے بے نیاز یہی لباس پہن کر نو آبادیاتی رسم نبھا رہے ہیں، اگرچہ اس ڈریس کوڈ کو بدلنا بار کونسلز کا کام ہے تاہم اس نو آبادیاتی گرہ کو کھولنے میں قاضی صاحب کی بطور چیف جسٹس دو چار آبزرویشنز ہی کفایت کر سکتی ہیں۔

ہمارا نوآبادیاتی نظامِ انصاف کسی کو اس کے جرم پر سزا نہیں دیتا بلکہ جس کو سزا دینا مقصود ہو اس کا جرم تلاش کر لیتا ہے۔

تیسری گرہ جورسپروڈنس کی ہے۔ ہمارے عدالتی فیصلوں میں جان مارشل سے لے کر خلیل جبران تک سب کے حوالے موجود ہوتے ہیں، لیکن اپنی اسلامی جورسپروڈنس اور اپنی تہذیب کے کتنے حوالے موجود ہوتے ہیں؟

ہم فلسفہ قانون کے لیے مغرب ہی کی طرف کیوں دیکھتے ہیں، اگر ریاست کا مملکتی مذہب اسلام ہے تو عدالتی فیصلوں میں اسلامی جورسپروڈنس کیوں نہیں ملتی؟ ہم آج بھی نو آبادیاتی جورسپروڈنس پر کھڑے ہیں۔ ہم پاکستان کی اپنی مقامی جورسپروڈنس کیوں نہیں تشکیل کر سکے؟

چوتھی نوآبادیاتی گرہ لامحدود اختیارات کی بے کراں خواہش کی ہے۔ جسے اختیار ملتا ہے وہ نو آبادیاتی وائسرائے کی طرح اس پر کوئی قدغن برداشت نہی کرتا۔ سوموٹو کے اختیارات ہوں یا بنچ بنانے کے، بہت سے معاملات اصلاح طلب ہیں۔

عالم یہ ہے کہ کبھی چپل کباب پر سوموٹو ہو جاتا ہے کبھی سموسوں کی قیمت پر۔ جو اختیارات سپریم کورٹ کو دیے گئے ہیں وہ بھی عملا فرد واحد یعنی چیف جسٹس کی ذات میں جمع ہو گئے ہیں۔ غیر ضروری جوڈیشل ایکٹوزم بھی اصل میں اسی رویے کا ایک عملی آزار ہے۔ اس سے نجات بھی ضروری ہے۔

پانچویں نو آبادیاتی گرہ کا تعلق انصاف کی فراہمی سے ہے۔ دستاویزات بتاتی ہیں کہ برطانوی نو آبادیاتی بندوبست میں انصاف کی فراہمی عدالت کی ذمہ داری نہیں تھی، یہ اس کی مہربانی تھی۔ چنانچہ سائل کو انصاف مانگنے کا حق نہیں تھا، ہاں وہ اس کی درخواست ضرور کر سکتا تھا اور نو آبادیاتی نظام اپنے وفاداروں کی شکایت کا ازالہ ازرہ احسان کرتا تھا، فرض سمجھ کر نہیں۔

 یہی وجہ ہے کہ درخواستوں میں آج بھی prayer لکھی جاتی ہے اور انصاف کی التجا کی جاتی ہے، سائل آج بھی عرض گزار ہے، وہ انصاف کی ڈیمانڈ نہیں کر سکتا۔ وہ لجاجت سے صرف التجا کرتا ہے۔

 نو آبادیاتی جورسپروڈنس کے اس پہلو کا یہ منطقی نتیجہ ہے کہ مقدمات لٹک جائیں، سالوں فیصلہ نہ ہو اور ان کا انبار لگ جائے۔ لوگ بری ہوں تو معلوم ہو پہلے ہی پھانسی پا چکے یا تین مرلے کے مکان کے مقدمے کا فیصلہ ہوتے ہوتے عشروں بیت جائیں۔

یہ گرہ بھی قاضی صاحب کے ایک انتظامی حکم نامے سے کھل سکتی ہے کہ انصاف کے لیے التجا نہیں جائے گی مطالبہ کیا جائے گا، prayer نہیں لکھی جائے گی ’ڈیمانڈ‘ لکھی جائے گی اور انصاف کی فراہمی رعا پر احسان نہیں، منصف پر فرض ہے۔

فیڈرل جیوڈیشل اکیڈمی اور لا اینڈ جسٹس کمیشن جیسے ادارے چیف جسٹس کے ماتحت ہوتے ہیں لیکن اب تک ان کی کارکردگی کیا ہے؟ لا اینڈ جسٹس کمیشن کے آرڈی نینس کی دفعہ 6 کا کہنا ہے کہ یہ ادارہ اسلام کے سماجی عدل کے اصولوں کے مطابق قانون میں اصلاحات تجویز کرے گا۔ کیا کمیشن کی آج تک کی سفارشات میں کہیں اسلامی سماجی عدل کا کوئی ذکر ہے؟

اسی طرح ہر سال کمیشن سپریم کورٹ کے زیرِ اہتمام ایک سالانہ جوڈیشل کانفرنس کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کا ایجنڈا کیسے طے کیا جاتا ہے؟ اس سال آبادی کے مسئلے پر کانفرنس تھی۔ جوڈیشل کانفرنس کا آبادی سے کیا تعلق ہے؟ عالم یہ ہے کہ 52 ہزار مقدمات تو صرف سپریم کورٹ میں زیرِ التوا ہیں۔

تو کیا انسانی آبادی کے بجائے کانفرنس اس پر نہیں ہونی چاہیے تھی کہ سپریم کورٹ اور دیگر عدالتوں میں ’مقدمات کی آبادی‘ کیسے کنٹرول کی جائے؟

چھٹی نو آبادیاتی گرہ یہ ہے کہ اس میں وسائل کو امانت نہیں، مال غنیمت سمجھا جاتا ہے۔ برطانیہ سے افسران یہاں آتے تھے اور برصغیر کے وسائل عملاً مال غنیمت تھے۔ یہاں سے ایک خاص نفسیات کی تشکیل ہوئی اور اس جدید دور میں مراعات کی شکل میں یہ نفسیاتی گرہ باقی ہے۔

قاضی فائز عیسیٰ چاہیں تو ان غیر معمولی مراعات کو ایک حکم نامے سے کم کر سکتے ہیں۔ اپنے ادارے سے آغاز کریں اور پھر اس کا اطلاق ساری افسر شاہی پر کر دیں۔

ہمارے نظام انصاف میں جو ’اسلامی ٹچ‘ دیا گیا ہے اس کی جڑیں بھی نو آبادیاتی بندوبست میں ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے کیا کیا تھا؟ سارا نظام کامن لا کا لیکن تھورا سا اسلامی ٹچ، کہیں قاضی، کہیں منصف تاکہ رعایا مطمئن رہے۔ یہاں بھی وہی ہے۔ یہ گویا ساتویں گرہ ہے۔ یہ ابھی تک نہیں کھل سکی۔

 آج بھی قانونی بندوبست سارا کامن لا کا ہے لیکن اسلامی ٹچ کے طور پر کہیں کہیں فیڈرل شریعت کورٹ اور شریعت اپیلیٹ بنچ جیسے ادارے موجود ہیں۔ جس طرح وہاں اسلامی جج نسبتاً کم تر ہوتے تھے ایسی ہی ہمارے ہاں بھی شریعت اپیلٹ بنچ کے ججوں کے ساتھ ہر اعتبار سے سوتیلا سلوک کیا جاتا ہے۔ حتی کہ انہیں جج کا درجہ بھی صرف اس مختصر دورانیے کے لیے حاصل ہوتا ہے جب وہ بنچ کا حصہ ہوتے ہیں اور سماعت کر رہے ہوتے ہیں۔

شریعت اپیلیٹ بنچ عملاً غیر فعال ہے اور اس کے سامنے پچھلی صدی کے مقدمات بھی فیصلے کے منتظر ہیں۔ قاضی صاحب چاہیں تو یہ بنچ بھی فعال ہو سکتا ہے۔ اور وہ چاہیں تو تمام جج صاحبان کے لیے اسلامی قانون سے آگہی کا بھی کوئی پروگرام شروع کر سکتے ہیں تا کہ الگ سے کسی اسلامی اور شرعی عدالت کی ضرورت ہی باقی نہ رہے۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں شریعہ اکیڈیمی بنائی ہی اسی مقصد کے لیے گئی تھی۔

آٹھویں نو آبادیاتی گرہ کا تعلق تعیناتی اور احتساب سے ہے۔ نو آبادیاتی دور میں جج تو کیا معمولی سے انگریز عمال حکومت کے خلاف بھی احتساب کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ مناصب عطا کرنے میں بھی اہلیت کا بنیادی کردار نہ تھا۔ اس نو آبادیاتی روایت نے ہمارے پورے سماج کو گرفت میں لے رکھا ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ چاہیں تو اس رسم کے خاتمے کی ابتدا اپنے ادارے سے کر سکتے ہیں۔

ججوں کی تعیناتی اور ججوں کے احتساب کی ذمہ داری آئین نے جیوڈیشل کمیشن اور سپریم جیوڈیشل کونسل پر ڈالی ہے۔ یہ دو الگ ادارے ہیں لیکن عملاً سپریم کورٹ کے ماتحت دکھائی دیتے ہیں۔ غور طلب معاملہ یہ ہے کہ ان کی الگ حیثیت کیسے قائم کی جائے، تعیناتی کا طریقِ کار کیسے شفاف بنایا جائے اور کڑا احتساب کیسے یقینی بنایا جائے۔

ججوں کو جو اعلیٰ مقام دیا گیا ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ ان کا احتساب بھی کڑا ہو اور چونکہ جج ہی ججوں کا احتساب کرتے ہیں تو انھیں مثالی نمونہ پیش کرنا چاہیے۔ اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ سپریم جیوڈیشل کونسل یا تو عضو معطل کی طرح رہتا ہے یا کسی مخصوص جج کو نشانہ بنانا ہو تو تیز رفتار کارروائی کے ریکارڈ توڑ دیتا ہے۔

نویں گرہ قانون کی تشریح سے متعلق ہے۔ ہمارا صرف قانون ہی نو آبادیاتی نہیں ہے بلکہ اس کی شرح بھی بالعموم کامن لا ہی کے تناظر میں کی جاتی ہے اور کسی بھی نکتے کی تفہیم کے لیے عملا کامن لا کی روایات ہی معیار ہیں۔

اب معاملہ یہ ہے کہ ہمارا قانون بھلے کامن لا سے اخذ کیا گیا ہو لیکن ہماری آئینی جورسپروڈنس اس سے یکسر مختلف ہے۔ ہمارے نو آبادیاتی قانون کی تشریح کامن لا کی روایات کی روشن میں نہیں بلکہ ہماری آئینی مبادیات کی روشنی میں ہونی چاہیے۔

یہی بات فواد اسحاق بنام مہرین منصور کیس کے فیصلے میں جناب جسٹس قاضی فائز عیسی اور جناب جسٹس طارق مسعود لکھ بھی چکے ہیں کہ قدیم امریکی اور یورپی تصورات بسا اوقات ہمارے پاکستان کے جج صاحبان کے ذہن میں بھی سرایت کر جاتے ہیں۔

قانون کی شرح کرتے وقت ان یورپی اور امریکی قدیم تصورات کو ججوں کے ذہنوں سے باہر نکا لنے میں بھی قاضی فائز عیسیٰ بطور چیف جسٹس اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

نظام انصاف کا اس ملک میں جو حال ہے اس میں مناجات کے تو دفتر لکھے جا سکتے ہیں لیکن سو باتوں کی ایک بات یہی ہے کہ اس نظام قانون و انصاف کو ڈی کالونائز کرنے کی ضرورت ہے۔

 یہی کام قائد اعظم کر رہے تھے، اور انہوں نے ایکٹ آف انڈیا کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جب اپنی دستور ساز اسمبلی کے فیصلوں کو گورنر جنرل کی توثیق سے مبرا قرار دینے کی رسم ڈالی تو یہ گویا ڈی کالونائزیشن کا ارتقائی طریقہ تھا۔ افسوس کہ سپریم کورٹ کے جسٹس منیر کی سربراہی میں وضع کیے گئے نظریہ ضرورت نے اس سارے عمل کو پامال کر دیا۔

تاریخ اب قائد اعظم کے رفیق کار قاضی محمد عیسیٰ کے بیٹے کی طرف دیکھ رہی ہے۔ دیکھیے کیا فیصلہ آتا ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر