کیا سپریم کورٹ میں ’چین آف کمانڈ‘ ہونی چاہیے؟

سپریم کورٹ میں چین آف کمانڈ کا مطلب کیا ہے؟ یہی کہ چیف جسٹس کو اختیارات کا مرکز بنا دیا جائے، یہاں تک کہ عملا سپریم کورٹ کا مطلب چیف جسٹس کی ذات بن کر رہ جائے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کا بیرونی منظر (انڈپینڈنٹ اردو)

سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری صاحب نے اپنے دور میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ اب عدلیہ میں بھی ’چین آف کمانڈ‘ قائم ہو گئی ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا عدلیہ میں ایسی کوئی ’روایت‘ ہونی بھی چاہیے؟

سپریم کورٹ میں چین آف کمانڈ کا مطلب کیا ہے؟ یہی کہ چیف جسٹس کو اختیارات کا مرکز بنا دیا جائے، یہاں تک کہ عملاً سپریم کورٹ کا مطلب چیف جسٹس کی ذات بن کر رہ جائے۔ یہ تصور نظام عدل کی چولیں ہلا دیتا ہے اور ہم اس کا بارہا مشاہدہ کر چکے ہیں۔

چین آف کمانڈ میں سال کے سارے موسموں کا نام چیف جسٹس ہوتا ہے۔ مزاج مائل ہو جائے تو برسات ہوتی ہے، مزاج برہم ہو جائے تو لُو چلنے لگتی ہے، مزاج خوشگوار ہو تو موسم بہاراں ہے،  بے زار ہو تو جاڑا ہے۔

معاملات چلانے کا کوئی ضابطہ کوئی اصول نہیں۔ مزاج یار ہی اصول ہے اور وہی حرف آخر۔ مزاج یار کی تہذیب کے لیے پارلیمان کوئی قانون بناتی ہے تو اسے اٹھا کر طاق نسیاں پر رکھ دیا جاتا ہے۔

بینچ کیسے بنتا ہے؟ جیسے مزاج یار میں آئے۔ چاہے تو سینیئر ترین جج کسی بھی اہم مقدمے میں شامل نہ کیا جائے اور مزاج یار میں آئے تو خلق خدا کی دہائی بھی کسی تین رکنی بینچ کی تشکیل در تشکیل میں رکاوٹ نہ بن سکے۔

آئین میں ازخود نوٹس کا اختیار سپریم کورٹ کو دیا گیا ہے لیکن چین آف کمانڈ میں یہ اختیار بھی سپریم کورٹ کی بجائے صرف مزاج یار کے مدوجزر کے رحم و کرم پر رہتا ہے۔ جذبہ شوق بے اختیار ہوا تو سموسے اور چپل کباب پر سوموٹو لے لیا گیا اور برقِ تبسم نے بے تاب کیا تو کسی کے بیگ سے شراب کی بوتل نکلنے کی خبر پر سوموٹو لے لیا۔

شوقِ ناز نے دستک دی تو کچھ مقدمات کی سماعت ترجیحی بنیادوں پر ہونے لگے اور گریز کے موسم آ گئے تو کچھ مقدمات گناہوں کی طرح بھلا دیے گئے۔

چین آف کمانڈ میں کسی کو یہ سوال پوچھنے کا حق نہیں ہوتا کہ وہ کون سے مقدمات ہوتے ہیں جن کی سماعت فوری ہو جاتی ہے اور وہ کیسے مقدمات ہیں جن کی سیاہ بختی ان کا نمبر ہی نہیں آنے دیتی۔

چین آف کمانڈ چاہے تو جوش اضطراب میں انصاف کی فراہمی کی بجائے آبادی کو کنٹرول کرنے کی کانفرسیں کرنے لگ جائے اور چین آف کمانڈ چاہے تو جوش تمنا میں ڈیم بنانے پر تل جائے، خوابِ زلیخا کی طرح چین آف کمانڈ بھی جوشِ سیلاں کا نام ہے۔

احتساب کا نظام بھی چین آف کمانڈ کے جلوہ ناز کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ چین آف کمانڈ مائل ہو تو بعض جج صاحبان کے خلاف ریفرنس اور شکایات کے انبار پڑے رہیں، تب بھی کوئی کارروائی نہیں  ہوتی اور چین آف کمانڈ بے قرار ہو جائے تو کسی ایک جج اور اس کی اہلیہ کو احتساب کے سارے ذائقوں سے روشناس کروا دیا جاتا ہے۔

چین آف کمانڈ کسی ضابطے اور کسی چیک اینڈ بیلنس کو خاطر میں نہیں لاتی ۔ یہ آئین کی تشریح کے نام پر آئین ری رائٹ کر دینے پر قدرت رکھتی ہے، یہ چاہے تو پارلیمان کے بنائے گئے قانون کو معطل کر دے اور چاہے تو غیر آئینی اقدام کی توثیق کرتے ہوئے فردِ واحد کو آئین میں ترمیم کا وہ حق بھی دے دے، جو خود اس کے پاس نہیں ہوتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کا ایک فیصلہ بھلے ریکوڈک کی شکل میں قوم کا اربوں روپے کا نقصان کر دے، اس سے کوئی سوال نہیں ہو سکتا۔ چین آف کمانڈ کا یہ تصور نظامِ عدل کے لیے اجنبی ہے۔ نظامِ انصاف غیر ضروری صوابدیدی اختیارات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

 جج صاحبان میں اختلاف کا ہونا ایک فطری امر ہے۔ اس اختلاف کو فیصلوں میں سامنے آنا چاہیے کہ نظامِ انصاف کا یہ حسن ہے۔

ڈویژن بینچ اسی لیے بنایا جاتا ہے کہ دو جج مل کر فیصلہ کریں اور اگر ان میں اختلاف ہو تو پھر معاملہ چیف جسٹس کے پاس جاتا ہے۔ 

سپریم کورٹ اگر تمام ہائی کورٹس سے اعداد و شمار لے کر عوام کے سامنے رکھے تو معلوم ہو گا کہ اختلاف کی نوبت بہت کم آتی ہے۔ عموماً یہی ہوتا ہے کہ سینیئر جج جو رائے قائم کرتا ہے، جونیئر جج اس سے اتفاق کر لیتا ہے اور متفقہ فیصلہ آتا ہے۔

اس نکتے پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ڈویژن بینچوں میں یہ غیر معمولی اتفاق رائے بھی چین آف کمانڈ ہی کی ایک شکل تو نہیں۔

قاضی فائز عیسیٰ اس وقت چیف جسٹس ہیں۔ اگر وہ چین آف کمانڈ کے مروجہ نظام کی تہذیب کرتے ہوئے اپنے اختیارات کو محدود کرکے انہیں کسی ضابطے کے دائرہ کار میں لے آئیں تو نظام انصاف کی بہتری کے لیے یہ ایک غیر معمو لی قدم ہو گا۔

مگر اپنے ہی اختیارات کو محدود کرنا آسان کام نہیں۔ یہ وہ کوہ کنی ہے، جس کے تصور سے ہی زہرہ آب ہو جاتا ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر