بازار بند کرنے سے سموگ ختم ہو تو مہینہ دکانیں بند رکھیں گے: لاہور کے تاجر

پنجاب حکومت کی سموگ کم کرنے کے لیے ایک ماہ تک ہر بدھ کو مارکیٹیں بند کرنے اور گھروں سے کام کرنے کی تجویز پر ردعمل آ رہا ہے۔

پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں سموگ کی سطح میں اضافے کے بعد صوبائی حکومت نے اس کی روک تھام کے لیے کئی اقدامات کا اعلان کیا ہے جبکہ ماحولیاتی ماہرین نے اس صورت حال کو انسانی جانوں کے لیے خطرناک قرار دیا ہے۔

انرجی پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ای پی آئی سی) شکاگو کے تازہ ترین ایئر کوالٹی لائف انڈیکس (اے کیو ایل آئی) میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق فضائی آلودگی پنجاب میں متوقع عمر میں تقریباً چار سال کی کمی کرتی ہے۔

ایئر کوالٹی انڈیکس کے مختلف معیارات پر لاہور اور دیگر شہر دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں شامل ہیں۔

محکمہ ماحولیات پنجاب کے ترجمان ساجد بشیر نے بتایا کہ ’سموگ کی وجہ سے آلودگی میں اضافے کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

’پنجاب بھر میں فیکٹریوں، فصلوں کو جلانے، اینٹوں کے بھٹوں، دھواں دینے والی گاڑیوں اور رکشوں کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔‘

سٹی ڈسٹرکٹ ٹریفک پولیس نے بھی سموگ کے پیش نظر دھواں دینے والی گاڑیوں کے خلاف آپریشن شروع کر رکھا ہے۔

صوبائی حکومت کی جانب سے سموگ کم کرنے کے لیے ایک ماہ تک ہر بدھ کو مارکیٹیں اور دفاتر بند کرنے کی تجویز پر ردعمل آ رہا ہے۔

تاجر رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ’حکومت سموگ روکنے کے اقدمات صفائی اور دیگر طریقوں سے کرے مارکیٹیں بند کرانے سے صرف معاشی نقصان ہو گا۔‘

سموگ کیا ہے اور اس میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟

پنجاب یونیورسٹی کے کالج آف ارتھ اینڈ انوائرمینٹل سائنسز کے پرنسپل ڈاکٹر ساجد رشید نے بتایا کہ ’سموگ دھویں اور آبی بخارات کا مکسچر ہے، جتنا بھی دھواں اور بخارات فضا میں موجود ہوتے ہیں وہ موسم سرد ہوتے ہی جم جاتے ہیں۔

’اس کے نتیجے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ بنتی ہیں، جن سے آنکھوں میں جلن، جلد پر خارش، گلے میں خراش ہونا شروع ہو جاتی ہے۔‘

ساجد کے مطابق: ’سموگ کی بڑی وجہ ٹرانسپورٹ ہے۔ 50 فیصد گاڑیوں، ٹرکوں، موٹر سائیکل رکشوں اور بسوں سے نکلنے والا دھواں سموگ کا سبب بنتا ہے۔

’اس کے علاوہ فصلوں کو جلانے، لکڑی اور کوئلہ جلانے سے بھی دھواں پیدا ہوتا ہے جو فضا میں موجود نمی کے ساتھ مل کر جم جاتا ہے۔‘

ساجد رشید کے بقول: ’اس پر قابو پانے کے لیے حکومت کو شارٹ ٹرم، لانگ ٹرم اور مڈ ٹرم منصوبہ بندی کرنا ہو گی۔ اس میں حکومت کی جانب سے ہفتے میں ایک دن ورک ایٹ ہوم کا فیصلہ کیا گیا ہے جس سے سڑکوں پر ٹریفک کم ہو گی۔

’دوسرا یہ ہونا چاہیے کہ حکومت یقینی بنائے کہ سڑکوں پر دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں، فیکٹریوں اور فصلوں کو جلانے سے پیدا ہونے والے دھویں کو روکا جائے۔ جرمانے کیے جائیں اور سزائیں دی جائیں۔ جیسے بھی ہو مستقل بنیادوں پر عمل درآمد کرانا لازمی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’ستمبر اکتوبر میں پابندی ہونی چاہیے کہ کوئی کوڑا نہیں جلائے گا اور نہ کوئی فصلوں کی باقیات نذر آتش کرے گا۔‘

سموگ اورفضائی آلودگی کی وجہ سے صحت کو خطرات

سابق سربراہ ای این ٹی (ناک، کان، گلہ) گنگا رام ہسپتال لاہور، پروفیسر ڈاکٹر سمیع ممتاز نے کہا کہ ’ماحولیاتی آلودگی اور سموگ سانس کے مسائل کا سبب بن رہے ہیں جن میں برونکائٹس، دمہ اور دائمی رکاوٹ پلمونری بیماریاں شامل ہیں۔‘

ڈاکٹر سمیع کے بقول: ’آلودہ ہوا میں طویل عرصے تک رہنے سے سانس اور قلبی امراض کے ساتھ ساتھ صحت کی دیگر پیچیدگیوں کی وجہ سے اموات کی شرح میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔‘

ان کے مطابق: ’فضائی آلودگی، خاص طور پر بینزین اور فارملڈی ہائیڈ کی موجودگی سے پھیپھڑوں کے کینسر کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ طویل عرصے تک آلودگی سے متاثر ہونے والے افراد کو اس مہلک بیماری کے بڑھتے امکانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘

ڈاکٹر سمیع نے مزید بتایا کہ ’فضائی آلودگی کا شکار حاملہ خواتین کو کم وزن یا قبل از وقت بچے پیدا کرنے کا خطرہ ہو سکتا ہے جو بچے کی صحت کے مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔‘

ڈاکٹر سیمع ممتاز کے مطابق: ’فضائی آلودگی الرجی اور جلدی بیماری کو بڑھا سکتی ہے جس سے متاثرہ افراد کی تکلیف اور علامات میں اضافہ ہوتا ہے۔‘

حکومتی اقدامات اور ردعمل کا چیلنج

صوبائی محکمہ ماحولیات کے ترجمان ساجد بشیر نے اس حوالے سے کہا کہ ’پنجاب میں اینٹی سموگ مہم پہلے ہی تیز کر دی گئی ہے تاکہ اکتوبر کے آخر تک سموگ میں کمی لائی جا سکے۔ اس کے لیے صوبے کے تمام شہروں میں اینٹی سموگ سکواڈ تشکیل دیے گئے ہیں۔‘

ان کے مطابق ’یہ سکواڈ سکربر استعمال نہ کرنے والی فیکٹریوں، طے شدہ فارمولے کے تحت کام نہ کرنے والے اینٹوں کے بھٹوں اور فصلوں کی باقیات جلانے والوں کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں۔‘

ترجمان محکمہ ماحولیات کے مطابق: ’لاہور سمیت پنجاب بھر میں پالیسی بنائی گئی ہے کہ شرائط پوری نہ کرنے والی فیکٹریاں اور گاڑیاں نہیں چل سکیں گی۔

’صوبے بھر میں یکم اگست سے اب تک پانچ ہزار سے زائد فیکٹریوں میں چیکنگ کی گئی۔‘

ان کے مطابق: ’ان میں سے 1600 کو سکربر (آلودگی کنٹرول کرنے والا آلہ) استعمال نہ کرنے پر سیل کر دیا گیا اور 1100 کو جرمانے کیے گئے۔‘

ساجد بشیر کے بقول: ’ابھی اکتوبر شروع ہوا ہے اور ہماری ٹیمیں فیکٹریوں پر چھاپے مار کر کارروائیاں کرنے میں مصروف ہیں۔ پالیسی بنائی گئی ہے کہ سکربر استعمال نہ کرنے والی کوئی فیکٹری چلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سموگ کے معاملے پر ہی سٹی ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر مستنصر فیروز نے ایک ویڈیو بیان جاری کرتے ہوئے بتایا کہ ’سموگ روکنے کے لیے لاہور کی تمام بڑی شاہراوں پر دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں، ٹرکوں، رکشوں اور موٹر سائیکلوں کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔

’اس معاملے پر ٹریفک ملازمین جرمانوں کے ساتھ گاڑیاں تھانوں میں بھی بند کر رہے ہیں اور جرمانے کے باوجود مرمت نہ کرانے والوں کو گرفتار بھی کیا جا رہا ہے۔‘

تاہم حکومت کی جانب سے سموگ پر قابو پانے کی پالیسی کے پیش نظر تعلیمی اداروں اور مارکیٹوں کو بند کرنے کے فیصلہ پر تاجروں اور سکول مالکان نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

پرائیویٹ سکولز ایسوسی ایشن کے صدر کاشف رضا نے کہا کہ ’سکول بند کرنے سے بچوں کی تعلیم کا حرج ہو گا۔ تاہم اگر حکومت سمجھتی ہے کہ اس طرح ٹریفک کم ہونے سے سموگ کم ہو گی تو حکومت کے اعتماد میں لینے پر تعاون کر سکتے ہیں۔‘

انجمن تاجران لاہور کے صدر وقار احمد میاں نے کہا کہ ’سموگ پر قابو پانے کے لیے حکومت پہلے وہ اقدامات کرے جن سے کوئی فائدہ ہو۔ صفائی کا ذمہ دارعملہ شکایات پرعمل نہیں کرتا اسی طرح دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں سڑکوں پر کھلے عام گھوم رہی ہیں۔

ان کے مطابق: ’فصلوں کی باقیات جلانے والے حکومت کے قابو سے باہر ہیں تو مارکیٹیں بند کرنے سے صرف کاروبار ہی تباہ ہوں گے، سموگ میں کمی نہیں آئے گی۔‘

’اگر حکومت تاجروں کے ساتھ بیٹھ کر اس بات پر قائل کر لے کہ ہفتے میں ایک دن مارکیٹیں بند ہونے سے آلودگی یا سموگ نہیں ہو گی تو ہم ایک دن کی بجائے ایک مہینہ دکانیں بند کرنے کو تیار ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات