امریکہ: 18 افراد کے قتل میں ملوث مشتبہ فوجی اہلکار تاحال روپوش

امریکی ریاست مین کی گورنر جینیٹ ملز نے کہا کہ مشتبہ شخص کو اب بھی ’مسلح اور خطرناک‘ سمجھا جا رہا ہے۔

امریکی ریاست مین کے شہر لیوسٹن میں ماس شوٹنگ کے مشتبہ حملہ آور تاحال روپوش ہیں، جنہوں نے بدھ کی رات اندھا دھند فائرنگ کر کے 18 افراد کو قتل کر دیا تھا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق قانون نافذ کرنے والے ادارے 40 سالہ فوجی اہلکار اور مشتبہ حملہ آور رابرٹ کارڈ کی تلاش میں مصروف ہیں۔ جمعرات کی شب ان کے آبائی گھر کو گھیرے میں لیا گیا لیکن وہ انہیں ڈھونڈنے میں تاحال ناکام ہیں۔

حکام نے گذشتہ روز اس واقعے میں مرنے والے افراد کی تعداد 22 بتائی تھی، تاہم بعد میں اسے تبدیل کر کے 18 کر دیا گیا جب کہ 13 افراد فائرنگ سے زخمی بھی ہوئے۔

ملزم کی تلاش کے دوران حکام نے سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کیں، سکولوں اور کاروبار کو بند کرنے کا حکم دیا اور رہائشیوں کو گھروں کے اندر رہنے کو کہا۔

گورنر جینیٹ ملز نے کہا کہ مشتبہ شخص کو اب بھی ’مسلح اور خطرناک‘ سمجھا جا رہا ہے۔

رابرٹ کارڈ کے ایک پڑوسی ڈیو لیٹارٹے نے کہا کہ فائرنگ کی خبروں نے انہیں’توڑ‘ کر رکھ دیا ہے۔

انہوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے ان (کارڈ) سے اس کی توقع کبھی نہیں کی تھی۔‘

خبر رساں اداروں نے بدھ کی شام فائرنگ شروع ہونے کے بعد بولنگ کلب سے خوف زدہ ہو کر بھاگنے والے لوگوں کی فوٹیج بھی نشر کی۔

واقعے کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے مین کے گورنر کو وفاق کی جانب سے مدد کی پیشکش کرنے کے لیے فون کیا اور حکم دیا کہ وائٹ ہاؤس اور تمام سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم مرنے والوں کے سوگ میں سرنگوں رہے گا۔

صدر بائیڈن نے کہا کہ ’ایک بار پھر ہمارا ملک ایک اور بے حس اور المناک ماس شوٹنگ کے بعد سوگ میں ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ اب بھی ہتھیاروں کے تشدد سے دوچار ہے، ’جو معمول کی بات نہیں ہے اور ہم اسے قبول نہیں کر سکتے۔‘ انہوں نے قانون سازوں پر زور دیا کہ وہ مہلک اسلحے پر پابندی کا بل پاس کریں۔

یہ واقعہ 2017 کے بعد سے امریکہ میں فائرنگ کے مہلک ترین واقعات میں سے ایک ہے، جب لاس ویگاس میں ایک پرہجوم میوزک فیسٹیول کے دوران فائرنگ میں 60 افراد مارے گئے تھے۔

مشتبہ حملہ آور کون ہیں؟

امریکی فوج کے ریزرو دستے میں کام کرنے والے 40 سالہ سابق فوجی رابرٹ کارڈ پر لیوسٹن میں فائرنگ کر کے 18 لوگوں کو مارنے کا شبہہ ہے، جن کی حملے کے وقت اسلحے کے ساتھ کئی مبینہ تصاویر انٹرنیٹ پر گردش کر رہی ہیں۔

مین سٹیٹ پولیس کے کرنل ولیم راس نے جمعرات کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ حکام نے قتل کے الزام میں رابرٹ کارڈ کی گرفتاری کے لیے وارنٹ جاری کر دیے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ انہیں ’مسلح اور خطرناک‘ سمجھا جاتا ہے اور لوگوں کو خبردار کیا جاتا ہے کہ وہ ان کے قریب نہ جائیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیوسٹن پولیس ڈیپارٹمنٹ نے ایک داڑھی والے شخص کی تصاویر جاری کیں، جو براؤن ہوڈی اور نیلی کارگو پینٹ میں ملبوس اور اسالٹ رائفل سے لیس تھا۔

متعدد قانون نافذ کرنے والے ذرائع کے مطابق رابرٹ کارڈ ایک سرٹیفائیڈ آرمز انسٹرکٹر تھے۔

امریکی فوج نے رابرٹ کارڈ کی فوجی خدمات کے بارے میں تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ وہ دسمبر 2002 میں فوج میں بھرتی ہوئے اور آرمی ریزرو میں سارجنٹ فرسٹ کلاس (ایس ایف سی) کے عہدے پر رہے، تاہم ان کی کسی جنگ میں تعیناتی نہیں کی گئی۔

فوج کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا: ’امریکی فوج نے ایس ایف سی کارڈ کو آتشیں ہتھیاروں کے انسٹرکٹر کے طور پر تربیت نہیں دی تھی اور نہ ہی انہوں نے فوج کے لیے اس حیثیت میں خدمات انجام دیں۔‘

ایک امریکی فوجی کیریئر کی ویب سائٹ کے مطابق وہ ایک پیٹرولیم سپلائی سپیشلسٹ تھے، جن کی ذمہ داریوں میں فوج کے لیے ایندھن کی فراہمی کو ہر وقت تیار رکھنا تھا۔

اے بی سی نیوز کے مطابق انہیں مبینہ طور پر نیشنل گارڈ کے ایک اڈے پر فائرنگ کی دھمکی دینے کے بعد رواں سال کے شروع میں ایک ذہنی صحت کے مرکز میں دو ہفتے گزارنے پڑے تھے۔

این بی سی نیوز نے قانون نافذ کرنے والے بلیٹن کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ رابرٹ کارڈ نے حال ہی میں دماغی صحت کے مسائل کی اطلاع دی تھی، جس میں عجیب و غریب آوازیں سننا اور نیشنل گارڈ بیس میں فائرنگ کرنے کی دھمکیاں بھی شامل ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ