لاکھوں روپے کا پارٹی ٹکٹ: کیا غریب پاکستانی انتخاب لڑ سکتا ہے؟

بعض سیاسی جماعتیں خصوصا بلوچستان کی باپ پارٹی نے پارٹی ٹکٹ کے لیے لاکھوں کی فیس مانگی ہے۔

25 جولائی 2018 کی اس تصویر میں کوئٹہ میں ایک شہری عام انتخابات کے دوران ووٹ کاسٹ کرتے ہوئے(اے ایف پی)

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عام انتخابات کے لیے 8 فروری کی تاریخ تو دے دی ہے لیکن ابھی شیڈول کا اعلان نہیں ہوا ہے۔ تاہم اکثر سیاسی جماعتوں نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کے لیے ٹکٹ کے حصول میں دلچسپی رکھنے والے امیدواروں سے درخواستیں طلب کرنی شروع کر دی ہیں۔

سابق حکمران جماعت مسلم لیگ نون نے تین نومبر کو جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی نے قومی اسمبلی کی نشست کے لیے پانچ دسمبر تک درخواستیں طلب کیں ہیں۔

یہ درخواستیں عام انتخابات میں حصہ لینے کا پہلا مرحلہ ہوتا ہے جب کوئی امیدوار اپنی خواہش کا اظہار کرتا ہے اور سیاسی جماعت اس کی مقبولیت اور دیگر پہلووں کا جائزہ لے کر اسے ٹکٹ دینے یا نہ دینے کا فیصلے کرتی ہے۔

لیکن جہاں قومی دھارے کی سیاسی جماعتیں جیسے کہ پیپلز پارٹی اس درخواست کے ساتھ  قومی اسمبلی کے ٹکٹ کے لیے 40 ہزار اور صوبائی اسمبلی کے لیے 30 ہزار روپے کا بینک ڈرافٹ بھیجنے کی ہدایت دے رہی ہیں، ملک کے پسماندہ صوبے بلوچستان کی پارٹی بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) نے قومی اور صوبائی حلقوں کے درخواست گزاروں کے لیے بلترتیب ڈیڑھ اور ایک لاکھ کی فیس مقرر کی ہے۔

سابق حکمراں جماعت اور اس بار کی مبینہ طور پر فیورٹ سمجھی جانے والی مسلم لیگ نون نے قومی اسمبلی کی نشست کے ٹکٹ کے لیے دو لاکھ اور صوبائی کے لیے ایک لاکھ روپے کی ٹکٹ  فیس مقرر کی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی غریب آدمی اپنے جیسے عوام کے مسائل کے حل کے لیے اگر انتخابات میں حصہ لینے کا سوچتا ہے تو اسے پہلے تو یہ بڑی رقم جمع کرانا ہوگی بعد میں انتخابی مہم کے اخراجات تو الگ ہیں۔ کیا بلوچستان کا کویی غریب آدھی الیکشن میں حصہ لے سکے گا؟

باپ پارٹی نے اقومی اخبارات میں مہنگے اشتہارات کے ذریعے درخوستیں طلب کی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے درخواستیں اس سال مارچ کو طلب کی تھیں جب پنجاب اور خیبر پختونخوا میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا امکان موجود تھا۔ پارٹی نے یہ درخواستیں سابق صدر آصف علی زرداری کے نام بھیجنے کا کہا اور ساتھ میں شناختی کارڈ کی کاپی اور رابطہ نمبر کا تقاضہ بھی کیا۔

اس حوالے سے سینیئر صحافی اسلم خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'غریب کو الیکشن لڑنا ہے تو چندا اور ادھار لینا ہوگا کیونکہ صوبائی ہو یا قومی اسمبلی کی ہر نشست پر انتخاب لڑنے کے لیے لاکھوں کی فیس بطور رجسٹریشن کے دینا ہو گی۔ جس کا مطلب ہے کہ مسائل۔ بدحالی کا شکار غریب خود سیاست میں آکر اپنے جیسوں کی قسمت بدلنے کا خوب تعبیر ہوتے نہیں دیکھ سکے گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسلم خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں مزید بتایا کہ 'قومی اور صوبائی اسمبلی کی جو نشستیں ہیں ان پر جو امیدوار حصہ لینا چاہتے ہیں کسی بھی جماعت کے تو وہ اپنی پارٹی کو درخواستیں دیتے ہیں یہ روایت رہی ہے اور یہ پارٹی کا نظم و ضبط بھی رہا ہے کہ جو امیدوار قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشست پر لڑتے ہیں وہ درخواست کے ساتھ ساتھ یہ رقم بطور رجسٹریشن جمع کرواتے تھے جو ناقابل واپسی ہوتی ہے۔‘

اسلم خان کے مطابق: '1990 میں قومی و صوبائی اسمبلی کی نشست پر پچیس سے پچاس ہزار فیس درخواست کے ساتھ جمع کروائی جاتی تھی لیکن وہ بھی غریب شخص کے لیے اس وقت بڑی رقم تھی۔ ایسے میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی غریب خواہش مند کی درخواست پر توجہ دیتے ہوئے فیس چندہ کر کے ان کے لیے جمع کرواتے تھے۔ اس زمانے کے 25 یا 50 ہزار روپے دینا بھی ایک ناممکن سی بات تھی جو لوگ یہ فیس نہیں دے سکتے تھے ان کے لیے پارٹی خود انتظام کرتی تھی۔ ہم نے مختلف جماعتوں کے پاس دیکھا ہے کہ انہوں نے سینیٹرز بھی منتخب کرائے اور جو اراکین اسمبلی منتخب کرایا ان کی فیس انہوں نے خود ہی جمع کرائی۔‘

بلوچستان عوامی پارٹی کے فنانس سیکریٹری روز جان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'اشتہار کی اشاعت کے بعد سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی درخواست کے لیے کالز آنا شروع ہو گئی ہیں۔ کچھ مقامی لوگوں نے بھی رابطہ کیا ہے۔  ’صرف ہماری پارٹی ہی نہیں بلکہ تمام جماعتیں صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں پر رجسٹریشن کے لیے فیس لیتی ہیں۔ خواہش مندوں کی طرف سے جمع ہونے والی رقم پارٹی فنڈ کا حصہ بنتی ہے جو بعد میں خرچ ہوتی ہے۔‘

انہوں نے یقین دلایا کہ اس معاملے پر ایک باقاعدہ اجلاس بھی ہوگا جس میں انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے اٹھائے گئے سوال کو زیر بحث لایا جائے گا کہ غریب آدمی کس طرح انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے اور کیا اسے رجسٹریشن فیس کی مد میں کوئی سہولت مل سکتی ہے یا نہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست