عام انتخابات: خیبر پختونخوا میں سیاسی منظرنامہ کیسا ہوگا؟

آٹھ فروری 2024 کو عام انتخابات کے انعقاد کے اعلان کے بعد سے تمام صوبوں سمیت خیبر پختونخوا میں بھی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہوچکا ہے اور سیاسی جماعتیں تیاریوں میں مصروف ہیں۔

20 جولائی 2019 کی اس تصویر میں صوبہ خیبرپختونخوا کے علاقے جمرود میں پہلے صوبائی الیکشن کے دوران ایک شخص ووٹ ڈالتے ہوئے (اے ایف پی) 

پاکستان میں آٹھ فروری 2024 کو عام انتخابات کے انعقاد کے اعلان کے بعد تمام صوبوں سمیت خیبر پختونخوا میں بھی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہوچکا ہے اور تمام سیاسی جماعتیں اقتدار میں آنے اور مختلف اضلاع میں پنجہ آزمائی کے لیے تیاریوں میں مصروف ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری 16 نومبر سے خیبر پختونخوا کے دورے پر ہیں، جہاں انہوں نے ضلع ایبٹ آباد سے آغاز کرکے ملاکنڈ کے ضلع دیر سمیت چترال میں بھی ورکرز کنونشن کا انعقاد کیا ہے۔

ان ہی کنونشنز میں کچھ سیاسی رہنما بھی پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ مبصرین سمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کو خیبر پختونخوا میں کسی بڑے جلسے کرنے کا شوق نہیں ہے بلکہ وہ صرف اپنی موجودگی ظاہر کرنے کے لیے یہ کر رہے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی)، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، پاکستان تحریک انصاف پارلیمینٹیرین (پی ٹی آئی پی) اور  دیگر سیاسی جماعتیں بھی مختلف علاقوں میں کارنرز میٹنگ، ورکرز کنونشن اور دیگر سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔

اس صورت حال میں انڈپینڈنٹ اردو نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں خیبر پختونخوا کا سیاسی منظر نامہ کیسا ہوگا اور تجزیہ کاروں کو اس صوبے میں کون سی جماعت اقتدار میں آتی نظر آ رہی ہے۔

فرزانہ علی پشاور میں آج نیوز کی بیورو چیف ہیں۔ وہ گذشتہ 25 سال سے صحافت کر رہی ہیں اور صوبے کے سیاسی معاملات پر گہری نظر رکھتی ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری خیبر پختونخوا کے دورے پر ہیں اور ان کے اس دورے کا مقصد صرف یہ پیغام دینا ہے کہ پیپلز پارٹی اس صوبے میں موجود ہے۔

تاہم بقول فرزانہ علی یہ بھی حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی اس صوبے میں اندرونی اختلافات کا بھی شکار ہے اور تین چار خاندانوں کے مابین اقتدار پر مسئلہ ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’ایک خبر یہ بھی آئی ہے کہ شاید خیبر پختونخوا میں بھی مسلم لیگ ن کو کوئی اہم حصہ ملنے والا ہے اور تب ہی پیپلز پارٹی یہاں پر سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہوئی ہے۔‘

یاد رہے کہ پیپلز پارٹی پشاور کے سینیئر رہنما اور سابق رکن قومی اسمبلی عاصمہ عالمگیر نے بلاول کے دورہ خیبر پختونخوا کے دوران گذشتہ روز پارٹی کی سینٹرل ڈپٹی انفارمیشن سیکرٹری کے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔ عاصمہ عالمگیر پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما ارباب عالمگیر  کی اہلیہ ہیں۔

فرزانہ علی نے بتایا کہ پرویز خٹک کی پارٹی پی ٹی آئی پی کی بات کی جائے تو لگ یہ رہا ہے کہ ان کی پارٹی کی عوام میں مقبولیت اس حد تک نہیں بڑھی جتنی امید کی جاتی تھی اور اب یہ لگ رہا ہے کہ پرویز خٹک کے ساتھ کچھ دیگر دو تین سیاسی جماعتوں کو شامل کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے بتایا: ’اب جمعیت علمائے اسلام اور اے این پی کو ایک پیغام تو دیا گیا تھا کہ وہ پرویز خٹک کا ساتھ دیں لیکن جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے اب تک یہی لگ رہا ہے کہ وہ پرویز خٹک کے ساتھ نہیں جائیں گے کیونکہ جمعیت علمائے اسلام چاہے گی کہ وزیراعلیٰ ان کا ہو جبکہ پرویز خٹک اگر ہوں تو پھر وہ وزیراعلیٰ ہو سکتے ہیں اور لگ رہا ہے کہ اس پر جمعیت راضی نہیں ہے۔‘

فرزانہ کے مطابق جمعیت علمائے اسلام نے یہ پیغام بھی دیا ہے کہ وہ پاکستان مسلم لیگ ن کے ساتھ جائیں گے اور ان کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی ممکن ہے جبکہ پرویز خٹک کا بھی اقتدار میں کوئی نہ کوئی حصہ ہوگا۔

پاکستان مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف نے گذشتہ روز اسلام آباد میں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ ان کی رہائش گاہ پر ملاقات بھی کی ہے، جس میں جے یو آئی کے مطابق ملک میں سیاسی صورت حال پر گفتگو کی گئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فرزانہ علی کے مطابق اے این پی کی بات کریں تو لگ ایسا رہا ہے کہ وہ پاکستان مسلم لیگ کے ساتھ جا سکتی ہے اور اے این پی کے سینیئر رہنما امیر حیدر خان ہوتی نے ایک انٹرویو کے دوران بتایا بھی ہے کہ ان کا ایک فورم ہے اور اس میں بیٹھ کر اتحاد کی بات پر فیصلہ ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اب مجموعی طور پر منظر نامے پر دیکھا جائے تو خیبر پختونخوا میں مختلف سیاسی جماعتوں کا ایک اکھٹا پروگرام نظر آرہا ہے یعنی ایک اتحادی حکومت بنے گی، جس میں مختلف سیاسی جماعتوں کا حصہ ہوگا۔

عادل شاہ زیب ڈان نیوز کے پروگرام کے میزبان ہیں اور ملکی سیاست پر نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ خیبر پختونخوا میں سیاسی تجربات ہوتے رہے ہیں اور ماضی میں ہم اس کی جھلکیاں متحدہ مجلس عمل کے نام پر مذہبی اتحاد اور کسی زمانے میں ایک دوسرے کے شدید حریف پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے اتحاد کی صورت میں دیکھ چکے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ موجودہ سیاسی منظر نامے پر نظر دوڑائی جائے تو پاکستان مسلم لیگ ن اور جمعیت علمائے اسلام کا اتحاد بنتا نظر آرہا ہے جبکہ اے این پی کا جھکاؤ پی پی پی کی جانب ہوگا، جس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ اس وقت پیپلز پارٹی کے نشانے پر ہے جبکہ جے یو آئی اور  اے این پی کے اتحاد کا اے این پی کو ہمیشہ نقصان ہوا ہے۔

عادل نے بتایا: ’مجھے لگتا ہے کہ باقاعدہ اتحاد کے بجائے سیاسی جماعتیں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کو ترجیح دیں گی اور سیاسی جماعتیں چاہیں گی کہ تحریک انصاف، جو اس وقت زیر عتاب ہے، ان سے کسی طرح کا اتحاد کر کے پارٹی کے ووٹ بینک سے فائدہ اٹھا سکیں۔‘

تاہم عادل شاہ زیب کے مطابق: ’یہ جماعتیں پی ٹی آئی کے پاس جانے سے کتراتی ہیں جبکہ پی ٹی آئی پی، قومی وطن پارٹی اور پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی اتحاد بنا سکتی ہے۔ اس ساری صورت حال کا فائدہ آزاد امیدواروں کو ہوگا اور آئندہ حکومت بنانے میں ان کا بڑا کردار ہوگا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست