پاکستان میں عام انتخابات کی تیاریاں جاری ہیں اور ملک کی سیاسی جماعتوں نے اپنے یوتھ ونگز کو فعال کیا ہے تاکہ نئی نسل کے ووٹروں کی توجہ حاصل کی جا سکے۔
پاکستان میں جمہوریت کے فروغ کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹیو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ملک کے اہل ووٹروں میں سے ایک بڑی تعداد ایسے افراد کی ہے، جن کی عمریں 18 اور 35 سال کے درمیان ہیں۔
الیکشن کمشن آف پاکستان (ای سی پی) کی آفیشل ویب سائٹ پر دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 11 ستمبر، 2023 تک رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 12 کروڑ، 75 لاکھ، 27 ہزار، 87 ہے۔
ان میں خواتین ووٹرز کی تعداد پانچ کروڑ، 87 لاکھ، 40 ہزار، 453 جبکہ مرد ووٹرز کی تعداد چھ کروڑ، 87 لاکھ، 86 ہزار، 634 ہے۔
2018 کے مقابلے میں 2024 کے عام انتخابات میں کتنے نئے نوجوان ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے قابل ہوئے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں الیکشن کمیشن کی پنجاب میں ترجمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آنے والے عام انتخابات کے لیے نئے رجسٹرد ووٹرز کی ایک اور نئی فہرست تیار ہو رہی ہے، جس میں معلوم ہو سکے گا کہ 2024 کے انتخابات کے لیے مزید نئے کتنے ووٹرز رجسٹر ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس فہرست پر کام ہو رہا ہے، ویسےتو یہ الیکشن کمشن آف پاکستان کی مرضی ہے کہ وہ یہ فہرست کب جاری کرتا ہے، لیکن ہمیں امید ہے کہ یہ فہرست آئندہ آنے والے ایک ہفتے میں جاری ہو جائے گی۔
نوجوان ووٹرز کا کردار کتنا اہم؟
اس حوالے سے احمد بلال محبوب نے بتایا کہ ہمارے کل رجسٹرڈ ووٹرز میں سے 18 سے 35 سال کے 44 فیصد ووٹرز ہیں، جنہیں ہم نوجوان ووٹرز کہہ سکتے ہیں۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ یہ ہے کہ یہ نوجوان ووٹرز اپنے حق رائے دہی کو استعمال نہیں کرتے اور اگر ہم گذشتہ آٹھ انتخابات میں جنرل ووٹرز ٹرن آؤٹ نکالیں تو وہ تقریباً 45 فیصد ہے۔
’ایگزٹ پول کے مطابق نوجوان ووٹرز کا ٹرن آؤٹ تقریباً 31 فیصد رہا یعنی اوسط ٹرن آؤٹ سے 14 پوائنٹس کم۔
’نوجوان کم ووٹ ڈالتے ہیں اور اگر یہ سب ووٹ ڈالیں یا زیادہ نوجوان ووٹ ڈالیں تو ان ووٹرز کی اہمیت بڑھ جائے گی۔‘
احمد بلال محبوب کے مطابق نوجوان ووٹرز کو ووٹنگ کے عمل میں لانے کے لیے سیاسی جماعتوں کو ان پر فوکس کرنا چاہیے لیکن میں نے نہیں دیکھا کہ کوئی بھی جماعت نوجوان ووٹرز کو لے کر سنجیدگی سے کام کر رہی ہو۔
’یہ زبانی جمع خرچ کرتے ہیں لیکن اپنے امیدوار تک نوجوانوں میں سے منتخب نہیں کرتے۔‘
ان کا کہنا تھا: ’پاکستان تحریک انصاف جو نوجوانوں کی بات کرتی تھی خود اس پارٹی نے بھی نوجوان امیدواروں کو زیادہ موقع نہیں دیا۔
’گذشتہ انتخابات میں سب سے زیادہ نوجوان امیدوار تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے تھے، جو 36 فیصد تھے۔
’پاکستان تحریک انصاف کے گذشتہ عام انتخابات میں نوجوان امیدوار 17 فیصد تھے، پاکستان پیپلز پارٹی کے 17 فیصد سے کچھ زیادہ تھے جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن کا تو بہت ہی برا حال تھا، جہاں صرف 13 فیصد نوجوان امیدوار تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت کچھ سیاسی پارٹیاں اپنے یوتھ ونگز کو فعال کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، یہ کوششیں کتنی کامیاب ہوں گی اس بارے میں تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے کہ نوجوان ووٹرز کا جو ٹرینڈ گذشتہ انتخابات میں دیکھا گیا وہ جاری رہے گا۔
سیاسی جماعتیں یوتھ ونگز کو عام انتخابات کے لیے فعال کرنے کے لیے کیا کر رہی ہیں؟
پاکستان مسلم لیگ ن کی پنجاب کی سیکریٹری اطلاعات عظمیٰ بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’ہمارے بہت سے نوجوان ووٹرز ہیں اور اگر وہ سوشل میڈیا پر متحرک دکھائی نہیں دیتے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ووٹر نہیں یا وہ اپنا حق رائے دہی استعمال نہیں کریں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کو جتنا پچھلے ایک سال کے اندر مریم نواز نے بطور پارٹی کی چیف آرگنائزر منظم کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔
’ہم نے مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن (ایم ایس ایف) کو بھی دوبارہ لانچ کیا ہے، اس کے لاکھوں کی تعداد میں ہر صوبے سے اندراج ہو رہے ہیں۔
’ہمارے یوتھ ونگ کے اندر بھی ہر ضلع میں ہر درجے کے اوپر یہاں تک کہ یونین کونسل سطح تک کوآرڈینیٹرز اور تنظیمیں بنائی گئی ہیں اور وہ سب لوگ اس حوالے سے اپنا اپنا کام کر رہے ہیں۔‘
عظمیٰ بخاری کا مزید کہنا تھا کہ ان کی توجہ نوجواںوں پر ہے۔ ’نوجوان ہمیشہ ہماری جماعت کی ریڑھ کی ہڈی رہے ہیں اور نوجوانوں کے لیے جتنا کام پاکستان مسلم لیگ ن نے کیا، چاہے وہ لیپ ٹاپس ہوں، اینڈوومنٹ فنڈز ہوں، کھیلوں کی سرگرمیاں ہوں یا بیرون ملک تعلیمی سکالر شپس ہوں اور کسی نے نہیں کیا۔
’ہم نے نوجواںوں کو ہمیشہ اہمیت بھی دی اور اس مرتبہ ہماری مرکزی توجہ نوجوانوں کے ونگ کے اوپر ہی ہے۔‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے رواں ماہ پارٹی کے یوم تاسیں کے سلسلے میں کوئٹہ میں جلسے کے دوران یہ بات کی کہ ملک کو معاشی اور دیگر بحرانوں سے نکالنے کے لیے پاکستان کو نوجوان وژنری قیادت کی ضرورت ہے۔
بلاول کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کو ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو نفرت کو ختم کرے، لوگوں کو تقسیم کرنا بند کرے، ملک کے لوگوں کو متحد کرے اور نوجوانوں کے مسائل حل کرے، جو ملک کی 70 فیصد آبادی پر مشتمل ہیں۔ میں خود جوان ہوں، اس لیے ان کے مسائل اور سوچ سمجھ سکتا ہوں۔‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما حسن مرتضیٰ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کوئٹہ کے جلسے میں پوری یوتھ پالیسی دی ہے۔
’ہمارا یوتھ ونگ بھی موجود ہے، جسے ہم مزید فعال بھی کر رہے ہیں اور اگر پاکستان پیپلز پارٹی حکومت میں آتی ہے تو اپنی یوتھ پالیسی پر عمل درآمد بھی کرے گی، جس سے نوجوان نہ صرف طاقتور ہوں گے بلکہ ان کی جماعت سے وابستگی بھی مضبوط ہو گی۔‘
حسن مرتضیٰ کا مزید کہنا تھا: ’ہمارے نوجوان گذشتہ چند برسوں میں بہت مایوس ہوئے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا ان کو بہکانے اور ورغلانے والا پروگرام تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایک کروڑ نوکریاں دیں گے، گھر اور روزگار کے مواقع فراہم کریں گے لیکن وہ ایسا نہ کر پائے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی واحد سیاسی جماعت ہے جس کی قیادت ایک نوجوان کر رہے ہیں، جن میں کچھ کرنے کی لگن ہے اور وہ تو واضح الفاط میں کہتے ہیں کہ ’بابوں سے جان چھڑوانی ہو گی‘، یہ نوجوانوں کا پاکستان ہے۔ ہم 60 فیصد کو نظر انداز نہیں کر سکتے، انہیں ساتھ لے کر چلیں گے کیونکہ انہوں نے ہی کل کو ملک چلانا ہے۔‘
حسن مرتضیٰ کے خیال میں ’پاکستان پیپلز پارٹی نوجوانوں کو اپنی طرف زیادہ راغب کرے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کا منشور ابھی بن رہا ہے، اس میں نوجوانوں کے لیے جو خاص ایک کمیٹی بنائی گئی ہے، وہ اس وژن کو لے کر چلیں گے، جن کا ذکر بلاول بھٹو زرداری نے اپنے کوئٹہ کے جلسے میں نوجوانوں کے حوالے سے کیا۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس سلسلے میں پاکستان تحریک انصاف کے رکن وقاص افتخار سے بھی بات کی۔
وقاص افتخار 2018 کے عام انتخابات سے پہلے پی ٹی آئی کے یوتھ ونگ یعنی انصاف سٹوڈنٹ فیڈریشن کا اہم حصہ بھی رہے اور اس کے مختلف عہدوں پر بھی فائز رہے.
اس کے بعد جب پی ٹی آئی کی حکومت بنی تو یہ اوورسیز پاکستانی کمیشن کے چیئرمین بنا دیے گئے اور اب سیالکوٹ، ڈسکہ سے پارٹی کے صوبائی اسمبلی کے امیدوار بھی ہیں۔
وقاص نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میں نے 2007 میں عملی سیاست میں حصہ لیا، طلبہ سیاست پر تو ہمیشہ ہی پابندی رہی لیکن انصاف سٹوڈنٹ فیڈریشن نے کام کیا۔‘
وقاص کہتے ہیں کہ 2018 سے پہلے ایک آئیڈیل صورت حال رہی ہے۔ ہاں تعلیمی اداروں میں مختلف تنظیموں کے ساتھ چھوٹے موٹے ٹکراؤ ہوا کرتے تھے لیکن مجموعی طور پر عمران خان کی وجہ سے نوجوانوں نے بہت تعاون کیا۔
’لیکن اب گذشتہ سات ماہ سے جس طرح کے حالات ہیں اس میں تنظیمی سرگرمیاں مشکل ہیں۔ آئی ایس ایف کے پنجاب کے صدر حیدر مجید نو مئی کے بعد سے پولیس حراست میں ہیں۔
}مرکز میں اس وقت کوئی بھی نہیں ہے، سب ادھر ادھر ہوگئے ہیں۔ جب تک قیادت سامنے نظر نہیں آئے گی نوجوان ووٹر کو موٹیویٹ نہیں کیا جا سکتا۔‘
وقاص کے خیال میں ان حالات کے باوجود ووٹ بینک شاید پہلے سے زیادہ ہو چکا ہے، نوجوانوں کو عمران خان نے شعور دیا ہے اس لیے وہ شاید خود بخود بھی ووٹ ڈالنے نکلیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’لوگوں میں جذبہ ضرور ہے کہ وہ ووٹ ڈالیں گے۔ پہلے دیہاتوں میں یہ کلچر ہوتا تھا کہ امیدوار ٹرانسپورٹ اور دیگر سہولیات دے کر ووٹر کو گھروں سے باہر نکالتے تھے۔ اب شاید اس طرح ہم سہولیات تو نہ دے سکیں لیکن ووٹر شاید خود اپنی مدد آپ کے تحت نکلیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ دوسری اہم بات یہ ہے کہ نوجوان زیادہ تر اپنے والدین کے کنٹرول میں ہوتے ہیں اور نو مئی کے بعد جو حالات بنے وہ بھی ڈرے سہمے ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے نوجوانوں میں آگاہی بہت زیادہ ہے اور اگر ان کو عام انتخابات کے لیے حالات ساز گار مل جاتے تو انہیں یا پاکستانی عوام کو کوئی نہیں روک سکتا تھا۔
سینیئر تجزیہ کار وجاہت مسعود نے سیاسی جماعتوں کے یوتھ ونگز کے حوالے سے کہا کہ نوجوان ووٹرز کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور اب اگر پاکستان تحریک انصاف انتخابات میں نہیں ہوتی تو یہ ووٹرز کس کو ووٹ دینا پسند کریں گے یہ دیکھنا پڑے گا۔
’میرے اپنے اندازے کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے جو سپورٹرز ہیں ان کی اوسط عمر 60 برس ہو چکی ہے۔
}جو لوگ 30 برس پہلے مسلم لیگ ن یا بے نظیر بھٹو کے آنے کے بعد بننے والی پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے، ان کی عمریں بھی اب زیادہ ہو چکی ہیں۔ ہاں اس وقت ایک کھلا میدان ہے تو اس کا فائدہ ہوگا۔‘
ان کا کہنا تھا: ’میں نوجوانوں کو پڑھاتا ہوں اور ان سے ملتا رہتا ہوں اس لیے مجھے لگتا ہے کہ ان پر جمہوریت اور سیاسی مخالف پراپیگنڈے کا بہت زیادہ اثر ہے۔
’ان سے بات چیت کرکے معلوم ہو جاتا ہے کہ ان کا ذہنی رحجان کس طرف ہے تو پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی طرف ان کی کوئی دلچسپی فی الحال میں نے نوٹ نہیں کی۔‘
وجاہت مسعود کا یہ بھی کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی موجودہ صورت حال کو مدنظر رکھیں تو اس میں دیکھنا ہو گا کہ انتخابات کے دن چونکہ بہت وسائل چاہیے ہوتے ہیں تو کیا تحریک انصاف کے پاس وہ مالی وسائل ہوں گے، کیا ان کے پاس وہ افرادی قوت ہوگی کہ وہ اپنے کیمپ قائم کر سکیں اور پولنگ ایجنٹس بٹھا سکیں؟‘
’بظاہر مجھے ان کے لیے رکاوٹیں دکھائی دے رہی ہیں اور میں ذاتی طور پر اسے جمہوریت کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں سمجھتا۔‘