کے پی: سابق حریفوں کو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت کیوں؟

آئندہ عام انتخابات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے جمعیت علمائے اسلام سے پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے رابطے جاری ہیں جبکہ پرویز خٹک بھی سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف ہیں۔

عوامی نیشنل پارٹی خیبر پختونخوا کے صدر ایمل ولی خان (بائیں) 18 دسمبر 2023 کو پشاوہ میں مفتی محمود مرکز کے دورے کے موقعے پر جے یو آئی کے صوبائی امیر مولانا عطا الرحمٰن (دائیں) سے ملاقات کے موقعے پر (عوامی نیشنل پارٹی ایکس اکنٹ)

عام انتخابات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے جمعیت علمائے اسلام ف (جے یو آئی) سے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رابطے کے بعد پیر کو اسی سلسلے میں نشستیں منعقد کی گئیں۔

اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے پشاور میں جے یو آئی کے صوبائی امیر مولانا عطا الرحمٰن کی قیادت میں ایک وفد سے ملاقات کی، جس میں آئندہ عام انتخابات پر گفتگو کی گئی۔

جے یو آئی کے صوبائی ترجمان عبدالجلیل جان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تینوں جماعتوں نے آئندہ عام انتخابات میں مشترکہ طور پر میدان میں اترنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے، جس کا جے یو آئی نے خیرمقدم کیا ہے۔

ان ملاقاتوں کے حوالے سے جمعیت علمائے اسلام کے صوبائی سیکرٹریٹ سے جاری کیے گئے ایک اعلامیے میں بتایا گیا کہ جے یو آئی کے امیر مولانا عطا الرحمٰن نے صوبے میں سیاسی ہم آہنگی کی ضروت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا میں روایات اور رواداری کا ہمیشہ احترام کیا گیا ہے اور مذاکرات کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

ماضی میں ایمل ولی خان نے جے یو آئی کے قائدین اور سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کو جلسے جلوسوں میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے لیکن انتخابات سے پہلے دونوں جماعتوں کے قائدین ایک ساتھ بیٹھ گئے ہیں اور ممکنہ طور پر آئندہ عام انتخابات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی طرف جائیں گے۔

اسی طرح پیپلز پارٹی کے قائدین کی بھی جے یو آئی کے صوبائی قائدین سے ملاقات میں عام انتخابات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر بات چیت ہوئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اے این پی نے پیپلز پارٹی کے ساتھ 2008 کے عام انتخابات میں بھی اتحاد کیا تھا اور خیبر پختونخوا میں اتحادی حکومت بنائی تھی۔ ان ہی کے دور میں 18ویں ترمیم پاس ہوئی تھی جس میں صوبوں کو اختیارات منتقل ہوئے تھے جبکہ اسی دور میں صوبہ ’سرحد‘ کا نام ’خیبر پختونخوا‘ میں تبدیل ہوا تھا۔ 

مبصرین سمجھتے ہیں کہ آئندہ عام انتخابات میں ان تینوں جماعتوں کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پرویز خٹک کی جماعت پاکستان تحریک انصاف پارلیمینٹیرین (پی ٹی آئی پی)کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے کیونکہ پرویز خٹک کے ساتھ ابھی تک کسی سیاسی جماعت نے اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے بات نہیں کی ہے۔

لحاظ علی پشاور میں مقیم صحافی ہیں اور سیاسی معاملات کی رپورٹنگ کرتے ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کی مقبولیت کم کرنے کے لیے کوششیں جاری ہیں اور اسی مقبولیت کو کم کرنے کے لیے پرویز خٹک کی سربراہی میں پی ٹی آئی پی بنائی گئی، جس کی وجہ سے پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ (پی ڈی ایم) میں موجود جماعتوں کو بھی خدشات ہیں۔

بقول لحاظ علی: ’اب پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کو یہ خوف لاحق ہوگیا ہے کہ پی ٹی آئی اگر کسی وجہ سے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتی یا ان کا ووٹ بینک خراب ہوتا ہے، تو ان کے ووٹرز صرف پی ٹی آئی پی کی طرف جائیں گے۔‘

انہوں نے بتایا کہ اب تمام سیاسی جماعتوں کی یہی کوشش ہے کہ کم از کم ان کی مرکزی قیادت جس میں مولانا فضل الرحمٰن، قومی وطن پارٹی، آفتاب شیر پاؤ، اے این پی کے ایمل ولی خان، پاکستان مسلم لیگ کے امیر مقام اور دیگر قائدین شامل ہیں، چاہتے ہیں کہ کم از کم وہ اپنی نشستیں جیت سکیں۔

لحاظ علی نے مزید بتایا کہ اضلاع کی سطح پر ان جماعتوں کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ ممکن ہے۔

حالیہ ملاقات کے بارے میں ذرائع نے بھی انڈپینڈنٹ اردو کو تصدیق کی ہے کہ اے این پی اور جے یو آئی کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا فیصلہ ہوگیا ہے۔

اس حوالے سے اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو گذشتہ ہفتے ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا تھا کہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد تو نہیں لیکن سیٹ ایڈجسٹمنٹ ممکن ہے۔

انہوں نے مزید بتایا تھا: ’انتخابات کے حوالے سے فیصلے صوبائی کونسل کرتے ہیں اور وہ اس بارے میں فیصلہ کریں گے لیکن صوبائی کونسل نے یہ فیصلہ ضرور کیا ہے کہ اتحاد تو نہیں ہوگا لیکن سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوسکتی ہے۔‘

پرویز خٹک نے بھی صوبے میں سیاسی جوڑ توڑ کے لیے کوششیں شروع کر رکھی ہیں اور اس حوالے سے وہ سرگرم ہیں۔ پرویز خٹک کے حوالے سے لحاظ علی نے بتایا کہ وہ ابھی تک اسی کوشش میں ہیں کہ پی ٹی آئی کا ووٹ بینک اپنی طرف کھینچ کر لے آئیں لیکن ابھی تک وہ اس مقصد میں کامیاب نظر نہیں آرہے۔

لحاظ علی نے بتایا: ’پرویز خٹک پی ٹی آئی کے کچھ لوگوں کو اپنی طرف لے آئے لیکن پی ٹی آئی کے ساتھ کسی بھی سیاسی جماعت کی موجودہ صورت حال میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ یا اتحاد ممکن نہیں ہوگا کیونکہ حالات ایسے ہیں کہ پی ٹی آئی سے سیاسی جماعتیں دور بھاگتی ہیں، البتہ جماعت اسلامی کی پی ٹی آئی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوسکتی ہے لیکن جماعت اسلامی خود بھی بہت کمزور پوزیشن پر ہے۔‘

محمود جان بابر پشاور میں مقیم سینیئر صحافی اور تجزیہ کار ہیں اور صوبے میں سیاسی منظر نامے پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ بات تو واضح ہے کہ آج جو سیاسی جماعتیں اکھٹی ہوئی ہیں تو ان کے دلوں میں ایک خوف موجود ہے۔

بقول محمود جان بابر: ’یہ خوف صرف پی ٹی آئی سے نہیں ہے بلکہ ماضی میں (یہ سیاسی جماعتیں) انتخابات ہار چکی ہیں تو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ انتخابات ہارے نہیں تھے بلکہ انہیں ہرایا گیا تھا اور اہم عنصر یہ ہے کہ پی ٹی آئی میں جو ابھی چہرے نظر آرہے تو کیا یہ لوگ پی ٹی آئی سے انتخابات لڑ سکیں گے یا نہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ابھی ان سیاسی جماعتوں میں یہ خوف ہے کہ کیا اب بھی انہیں واقعی میں لیول پلیئنگ فیلڈ دیا گیا ہے یا نہیں اور اسی وجہ سے یہ جماعتیں اکھٹی ہو رہی ہیں اور انہیں یہی خوف ہے کہ یہ دوبارہ انتخابات میں شکست سے دوچار نہ ہوجائیں۔

پی ٹی آئی کے حوالے سے محمود جان نے کہا کہ عمران خان کی پارٹی اب بھی لوگوں کے ذہن میں ہے اور یہ خوف اب بھی موجود ہے کہ جب حکومت بنانے کی بات کی جائے، تو یہ جماعتیں اب اس کوشش میں ہیں کہ کس کو کتنا حصہ ملے گا۔

ان کا کہنا تھا: ’پی ٹی آئی کے علاوہ اب کسی ایک بھی جماعت کو یہ یقین نہیں ہے کہ وہ اکیلے حکومت بنا سکتی ہے اور اسی وجہ سے اب یہ عیدالاضحیٰ کی قربانی کی طرح قربانی میں اپنا حصہ خرید رہے ہیں اور اسی کے ذریعے اب یہ انتخابات میں حصہ لیں گی۔‘

پی ٹی آئی پی کی کیا منصوبہ بندی ہے؟

اس سارے سیاسی منظر نامے میں مبصرین کی نظریں پرویز خٹک کی پارٹی پر بھی ہیں کیونکہ عام تاثر یہ ہے کہ پی ٹی آئی پی صوبے میں پی ٹی آئی کا ووٹ بینک اپنی طرف کھینچ سکتی ہیں۔

اس حوالے سے پی ٹی آئی کے سابق صوبائی وزیر اور اب پی ٹی آئی پی کے سیکرٹری اطلاعات ضیا اللہ بنگش نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہماری نظریں سیاسی معاملات پر ہیں اور ہم حلقوں میں اپنے امیدواروں کو میدان میں اتاریں گے۔‘

ضیا اللہ بنگش کے مطابق اس کے بعد جہاں پر ممکن ہوا تو وہاں ہم سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی کر سکتے ہیں اور اس کے لیے پرویز خٹک مصروف ہیں۔

انہوں نے بتایا: ’سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے پرویز خٹک سے سیاسی جماعتوں نے رابطے بھی کیے ہیں اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر بات چیت چل رہی ہے۔ ‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست