حماس رہنما کے قتل کے بعد اسرائیلی جاسوسی پر ترکی میں 34 گرفتار

ترک سکیورٹی ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا کہ حراست میں لیے گئے 34 افراد میں سے زیادہ تر غیر ملکی شہری تھے جنہیں موساد نے فلسطینیوں اور ان کے اہل خانہ کو نشانہ بنانے کے لیے بھرتی کیا تھا۔

ترک میڈیا کے مطابق ترکی نے اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں 34 افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔

یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب منگل کو حماس کے نائب سربراہ صالح العاروری لبنان میں اسرائیل کے ایک ڈرون حملے میں قتل کر دیے گئے۔

ترکی کے نجی ڈی ایچ اے اور سرکاری خبر رساں ادارے انادولو کے مطابق مشتبہ افراد کو استنبول کے آس پاس کے آٹھ صوبوں میں چھاپوں کے دوران گرفتار کیا گیا۔

ترک سکیورٹی ذرائع نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ حراست میں لیے گئے 34 افراد میں سے زیادہ تر غیر ملکی شہری تھے جنہیں موساد نے فلسطینیوں اور ان کے اہل خانہ کو نشانہ بنانے کی کارروائیوں کے لیے بھرتی کیا تھا۔

سکیورٹی ذرائع کا کہنا تھا کہ ’ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہیں کہ کوئی بھی غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسی مناسب اجازت کے بغیر ترکی کی سرزمین پر کام نہیں کر سکتی۔‘

نومبر میں اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو اور وزیر دفاع گیلانت نے واضح کیا تھا کہ وہ حماس کے رہنماؤں کو جہاں کہیں بھی ہوں نشانہ بنائیں گے۔

اس کے چند روز بعد اسرائیل میں ایک ریکارڈنگ نشر کی گئی جس میں سکیورٹی ادارے شین بیت کی داخلی سلامتی کے سربراہ رونن بار کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ ’ہم غزہ، مغربی کنارے، لبنان، ترکی اور قطر میں ہر جگہ ایسا کریں گے۔‘

اس کے جواب میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے گذشتہ ماہ اسرائیل کو خبردار کیا تھا کہ اگر اس نے ترکی کی سرزمین پر حماس کے ارکان کو قتل کرنے کی کوشش کی تو اسے ’بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس تناظر میں لبنان میں حماس کے نائب صدر العاروری کے اسرائیلی ڈورون حملے میں قتل کے دن ترکی میں بڑے پیمانے پر ان گرفتاریوں کی خبر اور ویڈیو نشر کرنا معنی خیز ہیں۔ 

ترکی کے وزیر داخلہ کی جانب سے جاری کردہ کچھ چھاپوں کی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس لوگوں کے فلیٹوں میں گھس کر مشتبہ افراد کے خلاف کریک ڈاؤن کر کے انہیں پولیس کی گاڑیوں میں ڈال رہی ہے۔

ترکی کی حکومت نے ایک ویڈیو فوٹیج جاری کی ہے جس میں مسلح سکیورٹی سروس کے اہلکاروں کو گھروں کے دروازے توڑتے اور مشتبہ افراد کو ہتھکڑیاں لگاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

استنبول پبلک پراسیکیوٹر کے دفتر نے کہا ہے کہ مزید 12 مشتبہ افراد مفرور ہیں۔

ان چھاپوں کے اعلان کے بعد اردوغان نے کہا، ’ترکی اور اس کے مفادات کے خلاف ایک مذموم آپریشن اور تخریب کاری کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔‘

فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ترکی کی سکیورٹی سروسز مزید 13 مشتبہ افراد کی تلاش میں ہیں جن پر اسرائیل کے لیے ’بین الاقوامی جاسوسی‘ میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔

غزہ پر حالیہ اسرائیلی جارحیت شروع ہونے کے بعد ترکی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات تیزی سے خراب ہوئے ہیں۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کا شمار اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کے سخت ترین ناقدین میں ہوتا ہے۔ گذشتہ ہفتے انہوں نے اسرائیلی وزیراعظم کا موازنہ ایڈولف ہٹلر سے کیا تھا۔

ترک صدر رجب طیب اردوغان نے تل ابیب سے انقرہ کے سفیر کو واپس بلا لیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیلی کمانڈروں اور سیاسی رہنماؤں پر ’جنگی جرائم‘ کا مقدمہ بین الاقوامی فوجداری عدالت میں چلایا جائے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا