کمشنر راولپنڈی کا اعترافی بیان اور اس کے ممکنہ نتائج

الیکشن ایکٹ کے مطابق کمشنر کا انتخابات کروانے میں کردار نہیں ہوتا اور یہ ذمہ داری ریٹرننگ افسران پر عائد ہوتی ہے۔

17 فروری 2024 کو کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ راولپنڈی میں پریس کانفرنس کے دوران دیکھے جاسکتے ہیں (غلام رسول/ اے ایف پی)

سابق کمشنر راولپنڈی ڈویژن لیاقت علی چٹھہ کا انتخابات میں بدعنوانی کا بیان بہت سنجیدہ ہے اور جوں جوں احتجاجی تحاریک سات مارچ 1977 کی طرز پر آگے بڑھتی گئیں تو مزید استعفے سامنے آسکتے ہیں، جن میں پنجاب کے اہم ترین ڈویژن کے ایک کمشنر کا نام بھی لیا جا رہا ہے۔

اگرچہ الیکشن ایکٹ کے مطابق کمشنر کا انتخابات کے معاملات میں کوئی کردار نہیں ہوتا اور آئین کے آرٹیکل 218(3) اور 219 کے مطابق یہ ذمہ داری ریٹرننگ افسران پر عائد ہوتی ہے اور ان کی کارکردگی کو مانیٹر کرنے کے اختیارات ضلعی رٹیرننگ افسران کے پاس ہوتے ہیں۔

انتخابات براہِ راست پریزائڈنگ آفیسران کی نگرانی میں ہوتے ہیں اور گنتی کا عمل بھی ان کے ذریعے ہوتا ہے۔ فارم 45 جو انتخابات کی اہم ترین دستاویزات ہوتی ہے کو بھی پریزائڈنگ افسر پولنگ ایجنٹوں کی موجودگی میں تیار کرتا ہے اور گنتی کے بعد یہ افسران حساس ترین مواد جس میں استعمال شدہ اور غیراستعمال شدہ بیلٹ پیپرز ہوتے ہیں کو پولنگ تھیلوں میں بند کر کے ریٹرنگ افسران کو پہنچاتا ہے۔

یٹرننگ افسر غیرحتمی نتائج فارم 45 کی بنیاد پر فارم47 پر تیار کر کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھجواتا ہے۔

کمشنر راولپنڈی ڈویژن لیاقت علی چٹھہ اب چوں کہ اپنی ہی خواہش پر زیرحراست ہیں انہوں نے اعترافِ جرم کا اقرار کرتے ہوئے راولپنڈی ڈویژن کی 13 قومی اسمبلی کی نشستوں کو ہی متنازع بنانے کی مذموم کوشش کی ہے۔

سابق کمشنر راولپنڈی ڈویژن کے الزامات کو چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر نے مسترد کر دیا ہے۔ ان کا موقف قانونی شہادت 1862 کے مطابق ہے اور حیرانی ہے کہ الیکشن کمیشن کی پریس ریلیز کی آخری سطر پڑھیں تو تحقیقاتی رپورٹ آنے سے پہلے ہی راولپنڈی ڈویژن کے خلاف کارروائی کا عندیہ دے دیا گیا ہے۔

اعترافِ جرم کرتے ہوئے کمشنر راولپنڈی کے الزامات زمینی حقائق کے برعکس ہیں تو چھان بین کریں اس کے بعد اپنی رپورٹ میں ان کے خلاف کارروائی کا حکم جاری کیا جائے۔

کمشنر راولپنڈی ڈویژن صرف الزام نہیں لگا رہے بلکہ اعترافِ جرم کر رہے ہیں وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب الیکشن کے نتائج بیورو کریسی کے نامزد کردہ ریٹرننگ افسران کی الیکشن قوانین سے نابلدی کے تحت پہلے ہی متنازع ہیں اور ہارنے والے امیدوار فارم 45 کو بطور ثبوت پیش کر رہے ہیں۔

امیدواروں کو الیکشن کمیشن کے خلاف بیانات کی بجائے ثبوت سے کمیشن کو مطمئن کرنا چاہیے تاکہ کمیشن الیکشن ایکٹ کی دفعہ نو کے مطابق سرسری سماعت کے ذریعے فیصلہ کر سکے۔

الیکشن کمیشن کی تحقیقاتی کمیٹی کے روبرو منسٹری ڈویژن کے 13 ریٹرننگ افسران اور چار ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران پیش ہو رہے ہیں اور اعتراف جرم کرنے والے سابق کمشنر راولپنڈی بھی اپنا حلفیہ بیان پیش کرنے کے پابند ہوں گے۔ 

موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے ہی قیاس آرائی ہو رہی ہے کہ اگر لیاقت علی چٹھہ نے کمیشن کی خصوصی کمیٹی کے رو برو یہ بیان ریکارڈ کرا دیا کہ ان کے دباؤ اور حکم کے تحت راولپنڈی کے 13 ریٹرننگ افسران نے نتائج تبدیل کیے ہیں اور تحقیقات آگے بڑھتی ہیں اور فارم 45 کا موازنہ کیا جاتا ہے تو قانونی بحران پیدا ہو جائے گا۔

معاملہ آگے جاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے اور بالآخر کمشنر راولپنڈی کے اعترافِ جرم سے نیا پنڈورا بکس کھل جائے گا۔ اگر اس دوران کوئی انہونا گواہ سامنے آ جاتا ہے تو الیکشن کمیشن دوراہے پر کھڑا ہو جائے گا اور سپریم کورٹ کو معاملہ دیکھنے کے لیے آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت کارروائی کرتے ہوئے اس تنازعے کو منطقی نتیجہ پر لے جانا ہوگا۔

آئین کے آرٹیکل 224 اور آئین کے آرٹیکل 91 کے تحت الیکشن کمیشن کے ضمنی گزٹ نوٹیفیکیشن کے اجرا کے بعد 21 روز میں قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنا ہوتا ہے۔

سابق کمشنر راولپنڈی کے اعترافات اور الزامات نے اپنے داخلی تضادات کے باوجود ملک گیر بلکہ عالمی سطح پر پورے انتخابی عمل کی صحت کے بارے میں شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ لہٰذا قابلِ اعتبار اور شفاف تحقیقات کر کے اس کے نتائج کو سامنے لانے کے لیے فارم 45، 46 اور 47 کا موازنہ ان حلقوں کے ریٹرننگ افسران کی موجودگی میں الیکشن کمیشن کے سپیشل سیکریٹری کی نگرانی میں کرایا جائے۔

فارم 45 اور 46 اہم ترین بنیادی دستاویزات ہیں اور فارم 46 میں پریزائیڈنگ افسران بیلٹ پیپرز استعمال شدہ اور غیراستعمال شدہ اور انتخابی فہرستوں کے ریکارڈ پر دستخط کرتا ہے۔

لہٰذا یہ دونوں دستاویزات بمعہ فارم 47 کے الیکشن کمیشن کو بھی دیکھنا چاہیے اور اس کے مطابق قانونی کارروائی کا اہتمام کیا جانا ناگزیر ہے۔ بظاہر کسی امیدوار کے پاس اپنے حلقے کے تمام پولنگ سٹیشنوں سے ملنے والے فارم 45 کی موجودگی میں فارم 47 میں مجموعی نتائج میں تبدیلی کا پکڑا جانا یقیناً ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کمشنر راولپنڈی ڈویژن کا پولنگ کے عمل میں کوئی کردار نہ ہونے کے باوجود لیاقت علی چٹھہ نے اتنے بڑے پیمانے پر نتائج کیسے تبدیل کر دیے؟ اگر ان کا دعویٰ درست ہے تو اس کا طریق کار بھی انہیں وضاحت سے بتانا چاہیے۔

انتخابی نتائج پر ملک بھر میں جاری احتجاجی امر کو بھی ناگزیر بنانا ہے کہ تمام حلقوں کے نتائج شفافیت کے اہتمام کے ساتھ فارم 45 کی بنیاد پر ازسرِنو مرتب کیے جائیں تاکہ انتخابی عمل پر اعتبار پوری طرح بحال ہو۔

قیامِ پاکستان کے 23 برس بعد سات دسمبر 1970 کو ون مین ون ووٹ کے نظریے کے تحت جنرل یحییٰ خان نے انتخابات کرائے اور انتخابات کے نتائج تسلیم نہ کرنے پر سقوطِ مشرقی پاکستان کا سانحہ ہوا اور اس کے بعد ہونے والے ہر انتخابات کے بعد جمہوریت مضبوط ہونے کی بجائے کمزور تر ہوتی چلی گئی۔

اب جمہوریت سے بے زار عوام یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس پارلیمانی جمہوری نظام ہی میں خامیاں ہیں اور عوام موروثی سیاست سے تنگ آ چکے ہیں اور حالیہ عام انتخابات میں نوجوانوں کی بھاری اکثریت نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔

راولپنڈی ڈویژن کے سابق کمشنر نے اعترافِ جرم کا اقرار کر کے راولپنڈی ڈویژن کی 13 قومی اسمبلی کی نشستوں کو متنازع بنا دیا ہے۔

ہمارے انتخابی قوانین اور رولز کی بنیاد پر ممکن ہے کہ تکنیکی طور پر ان کے موقف اور اعترافِ جرم کو ہی مسترد کر کے ان کے ذاتی خیال قرار دے کر معاملہ داخلِ دفتر کر دیا جائے لیکن سابق کمشنر راولپنڈی کے اعترافِ جرم پر ان کے خلاف محکمانہ کارروائی، توہین عدالت، توہین الیکشن کمیشن اور آئین کے آرٹیکل 218 (3) سے انحراف جیسے جرائم پر مقدمات درج ہوتے ہیں تو وہ اپنی صفائی میں پوشیدہ حقائق کو منظر عام پر لا کر تمام نتائج کو ہی لپیٹ دیں گے۔ لہٰذا الیکشن کمیشن کو ان کے اعترافِ جرم کو قانون کے مطابق آگے لے کر بڑھے۔

پاکستان واحد ملک ہے جہاں انتخابات کے بعد انتشار ختم نہیں ہوتا بلکہ شروع ہو جاتا ہے۔

پنجاب اسمبلی کا پہلا اجلاس 22 فروری کی شام چھ بجے ہو رہا ہے جس میں پہلے اجلاس میں ارکان صوبائی اسمبلی حلف اٹھائیں گے اور اگلے دن سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب عمل میں لایا جائے گا۔

ممکن ہے اسی شام وزیراعلیٰ کا انتخاب بھی ہو جائے اور رات گئے نئے وزیراعلیٰ حلف اٹھا لیں اور اسی رات نگران حکومت تحلیل ہو جائے گی۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر