سعودی عرب کا یوم تاسیس، مملکت کی 300 سالہ تاریخ توجہ کا محور

سعودی عرب کے یوم تاسیس کے جشن کے موقع پر مملکت کی ثفافت اور یہاں کے ماضی اور حال میں ہونے والی ترقی کے سفر کے ساتھ ساتھ مستقبل کے منصوبوں کو اجاگر کیا جا رہا ہے۔

سعودی عرب کا یوم تاسیسں ہر سال 22 فروری کو منایا جاتا ہے۔ اسلامی دنیا کے اس بڑے ملک کی تاریخ کے تقریباً 300 سالہ سفر میں حالیہ برسوں میں تیزی آئی ہے۔

اسی مناسبت سے سعودی میڈیا اور سوشل میڈیا پر مملکت کی ترقی کے سفر کو اجاگر کیا جا رہا ہے۔

سعودی فاؤنڈنگ ڈے نامی ویب سائٹ کے مطابق مملکت کی ترقی کا طویل سفر تقریباً 300 سال قبل شروع ہوا تھا اور آج سعودی عرب کے نام سے جس ملک کو دنیا جانتی ہے، اس کے ماضی، حال اور مستقبل کے تانے بانے اس کی شاندار تاریخ سے جڑے ہیں۔

امام محمد بن سعود کی جانب سے مملکت کا قیام 22 فروری 1727 کو عمل میں آیا تھا، جس کی مناسبت سے اس دن یوم تاسیس منایا جاتا ہے اور 23 ستمبر کو شاہ عبدالعزیز کی جانب سے اتحاد کی مناسبت سے اسے ’قومی دن‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

برسوں سے سعودی عرب کو ایک صحرائی سرزمین کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے جس کی مسلم دنیا سے باہر پہچان بہت ہی کم تھی کیونکہ مسلم ممالک اور دنیا بھر میں آباد مسلمان دو مقدس ترین مقامات مکہ بیت اللہ (مسجد الحرام) اور مدینہ میں مسجد نبوی کی مناسب ہی سے سعودی عرب کو جانتے تھے لیکن اب یہاں ہونے والی معاشی سرگرمیوں اور ترقی کے سبب یہ ملک دنیا کی توجہ کا محور بن رہا ہے۔

سعودی عرب کے یوم تاسیس کے جشن کے موقع پر مملکت کی ثفافت اور یہاں کے ماضی اور حال میں ہونے والی ترقی کے سفر کے ساتھ ساتھ مستقبل کے منصوبوں کو اجاگر کیا جا رہا ہے۔

عرب نیوز کے ایک مضمون کے مطابق مورخین نے بڑی محنت سے ان عربی تاریخی یادداشتوں، مخطوطات اور دستاویزات کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے، جس میں ان چیزوں کو سامنے لایا گیا ہے جن سے زیادہ تر باقی دنیا ناواقف تھی۔ خیال یہ ہے کہ اس سے سعودی عرب کی شاندار تاریخ کے ان صفحات پر روشنی ڈالی جائے گی جو اب تک صرف عربی زبان میں دستیاب تھے۔

یہ دستاویزات سعودی عرب کی دلچسپ تاریخ کو ظاہر کرتی ہیں۔

‌رواں ماہ ہی اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارے یونیسکو نے اپنے گلوبل نیٹ ورک آف لرننگ سٹیز میں تین نئے سعودی شہروں کو شامل کرنے کی منظوری دی۔

سعودی گزٹ کے مطابق ان تین شہروں میں مدینہ، کنگ عبداللہ اکنامک سٹی اور الاحساء گورنریٹ شامل ہیں اور یہ پیش رفت عالمی سطح پر نہ صرف مسابقتی شہریوں کی آبیاری کے لیے مملکت کی کوششوں کا ثبوت ہے بلکہ پائیدار ترقی کے اہداف اور سعودی وژن 2030 کے عزائم کی نمائندگی بھی کرتی ہے۔

اس سے قبل یونیسکو کی طرف سے سعودی علاقے درعیہ کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا گیا تھا۔ یہ مقام دلکش مٹی کی اینٹوں کے محلات کے لیے جانا جاتا ہے، جو سلطنت کی 300 سال سے زیادہ پرانی تاریخ کا مظہر ہے۔

تقریباً 30 سال تک تفریحی مقامات جن میں سینیما گھروں سے لے کر کنسرٹ ہالز تک شامل تھے، سعودی عرب بھر میں بند رہے، جس کی وجہ سے شہریوں اور زائرین کے لیے ثقافتی، کھیلوں یا فنکارانہ سرگرمیوں سے لطف اندوز ہونے کا کوئی موقع نہیں تھا لیکن 2016 میں وژن 2030 کے تحت وسیع پیمانے پر سماجی اور معاشی اصلاحات کا آغاز ہوا اور سعودی عرب میں جنرل انٹرٹینمنٹ اتھارٹی کے قیام کا آغاز کیا گیا۔

جنرل انٹرٹینمنٹ اتھارٹی کے قیام کے بعد سعودی عرب میں تفریح کے لیے لوگوں کا جوش و خروش صاف نظر آتا ہے۔

جنرل انٹرٹینمنٹ اتھارٹی کا قیام سعودی معیشت کو تیل پر انحصار سے دور رکھنے کے لیے وژن 2030 کے تحت کیا گیا تھا تاکہ سعودی عرب تخلیقی، تفریحی، سیاحتی اور ہائی ٹیک صنعتوں میں صف اول کی جگہ پا سکے۔

حالیہ برسوں میں ریاض، جدہ، مشرقی صوبہ طائف، العلا، الدرعیہ اور دیگر مقامات پر کئی تہواروں کا انعقاد کیا گیا جہاں سعودی عرب کی متنوع مقامی دستکاریوں اور روایات کو پیش کیا جاتا رہا جب کہ سعودی نوجوانوں کے لیے ملازمتوں کے مواقع بھی پیدا ہوئے ہیں۔

سیاحت ایک ایسا شعبہ ہے جسے میں سعودی عرب خاص طور پر 2019 میں اپنے سعودی ای ویزا کے اجرا کے بعد سے فروغ دینے کے لیے بہت کام کر رہا ہے۔

توقع ہے کہ 2030 تک سعودی عرب 100 ملین سیاحوں کی میزبانی کرے گا۔ ساحلی پٹی پر بنے شاندار ریزورٹس کے ساتھ ساتھ یہاں کے شاندار قدیم کھنڈرات، وسیع صحرا اور سرسبز پہاڑوں میں مہم جوئی کی سرگرمیاں انہیں کھینچ لائیں گی۔

یوم تاسیس منانا ایک روایت ہے، جس کے تحت آنے والی نسلوں کو تاریخ سے روشناس کرنا اور روشن مستقبل سے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے۔

یوم تاسیس تاریخ کو اپنی گرفت میں لے کر اسے زندہ کرتا ہے کیونکہ بچے اور بڑے اس دن روایتی ملبوسات پہننے پر فخر کرتے ہیں۔ اس کے برعکس عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ سعودی سفید تھوب اس وقت مردوں کا رسمی لباس نہیں تھا۔ یہ مردوں کے لیے آٹھ سے زیادہ روایتی ملبوسات میں سے ایک حصہ تھا، جو آب و ہوا اور علاقے کے لحاظ سے مختلف شکلوں میں پہنا جاتا تھا۔

موسیقی اور رقص

لوک داستانوں کے مطابق رقص سعودی قومی تقریبات کا ایک لازمی حصہ ہے اور ان کے ساتھ روایتی گانے بھی معاشرتی پہلوؤں سے ماخوذ ہیں، جو فخر اور جوش کا باعث ہیں اور یہ عوام کے درمیان تعلقات کو بڑھاتے ہیں۔

تلواروں کے ساتھ روایتی رقص ’اردہ‘ اس حوالے سے سرفہرست ہے۔ ماضی میں جنگیں جیت کر آنے والے مردوں کا فخریہ استقبال اس رقص سے کیا جاتا تھا۔ یوم تاسیس کے ساتھ ساتھ دیگر تقریبات میں بھی اردہ ارقص پیش کیا جاتا ہے تاکہ سعودیوں کے اتحاد اور مضبوط رشتے کا اظہار کیا جا سکے۔

‌مشروبات اور پکوان

اس دن مملکت بھر میں روایتی کھانے اور میٹھے پکوان پکانا اور پیش کرنا عام بات ہے۔ سعودی روایتی کافی اس دن کی خاص ڈش ہے۔ یہ زعفران اور الائچی کے ساتھ بھنی ہوئی کافی بینز سے تیار کی جاتی ہے اور عام طور پر مٹھائی کے ساتھ پیش کی جاتی ہے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا