فلسطینی نے ’اعلان بالفور‘ لکھنے والے برطانوی وزیر کی تصویر پھاڑ دی

فلسطین ایکشن گروپ نے سوشل میڈیا پر واقعے کی ویڈیو شیئر کر کے ساتھ میں لکھا: ’آرتھر بالفور کے اعلان نے ان کے وطن کو ختم کرنے کا وعدہ کرکے فلسطینیوں کی نسل کشی کا آغاز کیا اور ایسا کرنا ان کا حق نہیں تھا۔‘

فلسطین ایکشن گروپ کی ایک حامی کارکن نے جمعے کو برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کے ذیلی کالج میں 20 ویں صدی کے اوائل کے برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بالفور کی ایک پینٹنگ کو نقصان پہنچاتے ہوئے کہا کہ ان کی جانب سے 1917 میں اسرائیل کے قیام کے لیے پیش کی گئی قرارداد ہی کی وجہ سے فلسطینیوں نے اپنا وطن کھو دیا تھا

فلسطین ایکشن گروپ کی جانب سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیو میں ایک خاتون کو آرتھر بالفور کی تصویر کو چاقو سے کاٹنے سے پہلے پورٹریٹ پر سرخ پینٹ کا سپرے کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

فلسطین ایکشن گروپ نے شیئر کیے گئے اس ویڈیو کلپ کے ساتھ لکھا: ’آرتھر بالفور کے اعلان نے ان کے وطن کو ختم کرنے کا وعدہ کرکے فلسطینیوں کی نسل کشی کا آغاز کیا اور ایسا کرنا ان کا حق نہیں تھا۔‘

اس واقعے کے حوالے سے کیمبرج کے ٹرینیٹی کالج نے کہا کہ اسے اس نقصان پر افسوس ہے اور کالج کے اراکین کے لیے ان کی مدد موجود ہے۔

مشرق وسطیٰ میں خلافت عثمانیہ کے خاتمے اور برطانوی نوآبادیاتی دور میں آرتھر بالفور نے اپنی قرارداد میں کہا تھا کہ برطانیہ فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک ریاست کے قیام کو ان کے حق کی نگاہ سے دیکھے گا اور اس کے لیے کام کرے گا۔ 

یہ پہلا موقع تھا جب کسی بڑی عالمی طاقت نے عوامی طور پر یہودیوں کے وطن کے لیے حمایت کا اظہار کیا تھا، جس نے عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی صہیونی تحریک کو فروغ دیا اور جس نے 1918 اور اس کے بعد فلسطین میں عبوری برطانوی مینڈیٹ کردار کی شکل اختیار کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فلسطینیوں کا طویل عرصے سے مطالبہ ہے کہ برطانیہ 67 الفاظ پر مشتمل اس بیان پر معافی مانگے۔

فلسطین پر برطانوی حکمرانی 48-1947 میں یہودیوں اور عربوں کے درمیان جنگ، اسرائیلی ریاست کے اعلان اور تقریباً ان ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کی ہجرت کے ساتھ تکلیف دہ طور پر ختم ہو گئی، جنہیں جبری طور پر ان کی سرزمین سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔

برطانوی وزیراعظم رشی سونک نے گذشتہ ہفتے نفرت انگیز تقاریر میں اضافے کی روشنی میں فلسطینی حامیوں کے مظاہروں کے خلاف پولیس کے سخت ایکشن کا مطالبہ کیا تھا۔

ان کی حکومت نے خاص طور پر غزہ پر اسرائیل کی حالیہ جارحیت اور ہزاروں فلسطینیوں کی اموات سے پیدا ہونے والے انسانی بحران کے خلاف مظاہروں کی لہر میں شریک کچھ عناصر پر دھمکی آمیز رویے کا الزام لگایا ہے۔

رشی سونک نے کہا کہ لوگوں کو احتجاج کرنے کا حق ہے لیکن وہ غزہ کے فلسطینیوں کی حمایت کو حماس کی حمایت کا جواز پیش کرنے کے لیے استعمال نہیں کر سکتے۔

سات اکتوبر کے بعد سے غزہ پر اسرائیلی جارحیت میں 30 ہزار سے زیادہ فلسطینی جان سے جاچکے ہیں، ہزاروں زخمی ہیں جبکہ لاکھوں بے گھر ہو کر کیمپوں میں مقیم اور قحط کے دہانے پر ہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا