وفاقی کابینہ میں شامل شخصیات کا تعارف

وزیر اعظم شہباز شریف کی کابینہ کے 19 اراکین سے صدر مملکت آصف علی زرداری نے پیر کو حلف لیا۔

وزیر اعظم شہباز شریف کی وفاقی کابینہ میں شامل نئے اور پرانے چہرے (انڈپینڈنٹ اردو)

صدر مملکت آصف علی زرداری نے پیر کو وزیر اعظم شہباز شریف کی 19 رکنی وفاقی کابینہ کے اراکین سے حلف لیا۔

وزیر اعظم شہباز شریف کی کابینہ میں خواجہ محمد آصف، احسن اقبال، رانا تنویر حسین، اعظم نذیر تارڑ، چوہدری سالک حسین، عبدالعلیم خان، جام کمال خان، انجنیئر امیر مقام، سردار اویس احمد خان لغاری، عطااللہ تارڑ، خالد مقبول صدیقی، قیصر احمد شیخ، میاں ریاض حسین پیرزادہ، محمد اسحاق ڈار اور مصدق ملک شامل ہیں۔

وفاقی کابینہ میں کچھ چہرے ایسے ہیں جو پہلی مرتبہ وفاقی وزیر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیں گے، جب کہ اکثر پہلے بھی ان ذمہ داریوں پر فائض رہ چکے ہیں۔

وزیر اعظم شہباز شریف کی کابینہ میں سیاست دانوں کے علاوہ سابق پبلک سرونٹ، ٹیکنوکریٹ، بینکرز اور کاروباری شخصیات کو بھی جگی دی گئی ہے۔ 

قلمدان

حکومت سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق خواجہ محمد آصف کو دفاع، محمد اسحاق ڈار کو وزارت خارجہ، عطا ﷲ تارڑ کو وزارت اطلاعات، عبدالعلیم خان کو وزارت نجکاری، محمد احسن اقبال کو منصوبہ بندی، چوہدری سالک حسین کو اوورسیز پاکستانی اور محسن نقوی کو وزرات داخلہ کا قلمدان دیا گیا ہے۔

جام کمال خان کو وزارت تجارت، رانا تنویر حسین کو صنعت و پیداوار، مصدق ملک کو پیٹرولیم، اعظم نذیر تارڑ کو قانون، خالد مقبول صدیقی کو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، قیصر شیخ، ریاض پیرزادہ ، احد چیمہ، اویس لغاری کو ریلوے اور محمد اورنگزیب کو وزارت خزانہ کا قلمندان دیا گیا ہے۔

احد چیمہ کو اکنامک افیئرز اور قیصر احمد شیخ کو میری ٹائمز کی وزارت دی گئی ہے۔

کابینہ میں وفاقی حکومت میں شامل تمام اتحادی جماعتوں کو شیئر دیا گیا ہے تاہم پاکستان پیپلز پارٹی اس میں شامل نہیں ہے۔

  محسن نقوی

سید محسن رضا نقوی پنجاب کے سابق نگراں وزیر اعلیٰ نے پنجاب کی باگ دوڑ 22 جنوری 2023 سے 26 فروری 2024 تک سمبھالے رکھی۔ اسی دوران وہ چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) بھی منتخب ہوئے۔

محسن نقوی کو پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے ان کی برق رفتاری سے ترقیاتی منصوبے مکمل کر نے پر ’محسن سپیڈ‘ کے نام سے جانا گیا۔

نگراں وزیر اعلیٰ بننے سے پہلے محسن نقوی کا میڈیا میں ایک اہم کردرار مانا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے کارکن صحافی کے طور کام کرنے کے علاوہ لاہور سے پہلا نجی ٹی وی چینل متعارف کروایا اور بعدازاں پنجاب کے مختلف شہروں سے بھی مقامی اور قومی نیوز چینلز کا ایک سلسلہ شروع کیا۔ انہوں نے برطانیہ میں بھی ایک پاکستانی چینل کیا۔

28 اکتوبر 1978 کو لاہور میں پیدا ہونے والے محسن نقوی نے ابتدائی تعلیم کریسنٹ ماڈل سکول سے حاصل کی جب کہ گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کے بعد اوہائیو سٹیٹ یونیورسٹی کولمبیا سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔

ان کی شادی چوہدری پرویز الٰہی کی بھانجی اور معروف پولیس افسر اشرف مارتھ، جو دہشت گردی کے حملے میں جاں گنوا بیٹھے تھے، کی صاحبزادی وردہ اشرف سے ہوئی، جو پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں۔

محسن نقوی کے چار بچے ہیں، جن میں تین بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہے۔

وفاقی وزیر چوہدری سالک حسین رشتے کے اعتبار سے محسن نقوی کے ہم زلف ہیں۔

محسن نقوی کی صدر آصف زرداری سے قربت کا بہت چرچہ ہے، جس کا اظہار صدر آصف زرداری نے ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ کہہ کر کیا تھا کہ ’محسن نقوی میرا بیٹا ہے۔‘

پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت کے ساتھ بھی ان کے روابط گہرے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ 2024 کے عام انتخابات کے فوری بعد صدر آصف زرداری اور وزیر اعظم میاں شہباز شریف کے درمیان حکومت سازی کے معاملات پر بات چیت کے لیے پہلی ملاقات محسن نقوی کی لاہور کی رہائش گاہ پر ہی ہوئی تھی۔

عبدالعلیم خان

علیم خان ایک معروف تعمیراتی اور ہاؤسنگ پراجیکٹس کے حوالے سے جانی جانے والی شخصیت ہیں، لیکن ان کی پہچان ایک سیاست دان اور نیوز چینل مالک کی حیثیت سے بھی ہے۔

51 سالہ علیم خان  کا نام مشرف دور میں سامنے آیا، جب وہ لاہور سے 2002 میں صوبائی اسمبلی کا انتخاب میں مسلم لیگ ق کے پلیٹ فارم سے کامیاب ہوئے اور صوبائی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی مقرر ہوئے۔ اسی دوران انہوں نے ایک اخبار شروع کیا، جو کافی مقبول ہوا لیکن بعد میں اسے بیچ دیا گیا۔

2011 میں ق لیگ چھوڑنے کے بعد انہوں نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور ان کا عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہونے لگا۔

2018 میں پنجاب اسمبلی کا انتخاب جیتے اور مختلف صوبائی وزارتوں پر کام کرتے رہے۔ 2021 میں علیم خان نے پی ٹی آئی کو خیر باد کہا اور آئندہ سال جہانگیر خان ترین اور پی ٹی آئی کے کچھ دوسرے اراکین کے ہمراہ پاکستان استحکام پارٹی کی بیاد رکھی۔

2024 کے انتخابات میں انہوں نے لاہور سے مسلم لیگ ن کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے نتیجے میں کامیابی حاصل کی اور رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔

2022 میں ہی انہوں نے ایک بڑے ٹی وی چینل کو بھی خریدا تھا۔

چوہدری سالک حسین

چوہدری سالک حسین پاکستان مسلم لیگ ق کے صدر اور پاکستان کے 16ویں سابق وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین کے صاحبزادے ہیں۔

اکتوبر 2018 میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں سالک حسین نے چکوال سے قومی اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کی۔

2022 میں سالک حسین وزیر اعظم شہباز شریف کی کابینہ میں بطور وفاقی وزیر مقرر کیے گئے اور کچھ ہفتوں کے بعد انہیں وفاقی وزیر برائے بورڈ آف انویسٹمنٹ کا قلمدان تقویض کیا گیا۔ 

چوہدری سالک حسین 2024 کے عام انتخابات میں گجرات کے حلقے این اے 64 سے قومی اسمبلی کے امیدوار تھے اور وہ ایک لاکھ پانچ ہزار 205 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے اور انہوں نے پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ آزاد امیدوار قیصرہ الٰہی کو شکست دی، جنہوں نے ان کے مقابلے میں 80 ہزار 986 ووٹ حاصل کیے۔  

قیصرہ الٰہی، جو پی ٹی آئی کے رہنما چوہدری پرویز الٰہی کی اہلیہ ہیں، چوہدری سالک حسین کی پھوپھی ہیں۔

سینیئر صحافی لیاقت انصاری جو مسلم لیگ ق کو بہت قریب سے جانتے ہیں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سالک حسین نے ہمیشہ لو پروفائل میں رہ کر سیاست کی۔

پرویز الٰہی اور مونس الٰہی سے اختلافات سے پہلے یہ پارٹی کے ہر اجلاس میں بیک بنچر کے طور پر ہی شامل ہوتے رہے ہیں اور کافی خاموش طبع انسان ہیں۔

لیاقت کہتے ہیں کہ جب خاندان میں اختلافات پیدا ہونے پر سالک حسین سامنے آئے کیونکہ ان کے والد چوہدری شجاعت حسین پارٹی کے معاملات سنبھال نہیں پا رہے ہیں۔

’خاندان تقسیم ہونے سے قبل سیاسی ڈیلنگ ساری چوہدری پرویز الٰہی اور مونس الٰہی ہی کرتے تھے۔ سالک تو حلقے میں بھی نہیں جاتے تھے کیونکہ حلقے کے معاملات بھی وہ دونوں ہی دیکھتے تھے۔‘

لیاقت انصاری کے مطابق سالک حسین خاموش طبع ہیں لیکن پارٹی معاملات کو مینج کرنے میں ان کا کردار اہم ہے کیونکہ نواز شریف، شہباز شریف اور پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں کے ساتھ رابطوں کو سالک حسین نے ہی ہینڈل کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سیاسی طور پر چوہدری شجاعت حسین کے جان نشیں چوہدری سالک حسین ہی بنتے ہیں۔

 احد چیمہ

احد چیمہ نے پنجاب میں مسلم لیگ ن کے گذشتہ ادوار میں نمایاں سرکاری پوزیشنز پر کام کرتے رہے ہیں، جب کہ وہ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی کابینہ میں بھی شامل تھے۔

شہباز شریف کے قریب ہونے اور کئی محکموں کی باگ ڈور سنبھالنے کے باعث انہیں پنجاب کا ڈیفیکٹو وزیر اعلیٰ سمجھا جاتا تھا۔

پنجاب کے تمام بڑے منصوبے ان کی زیر نگرانی مقررہ مدت سے قبل مکمل ہوئے، جن کی وجہ سے شہباز شریف کو بطور وزیر اعلیٰ پنجاب ’شہباز سپیڈ‘ کا لقب بھی ملا۔

2018 کے عام انتخابات سے قبل پنجاب کی حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے رہنماؤں اور قریبی افسران کے خلاف نیب کا گھیرا تنگ ہوا تو سب سے پہلی گرفتاری احد چیمہ کی ہوئی تھی۔

ان کی گرفتاری کے بعد مسلم لیگ ن کی قیادت اور نواز شریف کے سابق پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد سمیت دیگر افسران کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا اور مختلف کیسز بنائے گئے۔

احد چیمہ کا تعلق پنجاب کے ضلع حافظ آباد سے ہے، لیکن ان کے والد تین بیٹوں کے ہمراہ لاہور آ گئے اور گارڈن ٹاؤن میں 10 مرلے کے گھر میں رہائش اختیار کی تھی۔  

لاہور کے سول سیکرٹریٹ کی خبروں کی کوریج کرنے والے سینیئر صحافی بابر ڈوگر کے بقول احد چیمہ وہ پہلے افسر ہیں، جنہوں نے دوران سروس تین سال جیل میں بھی گزارے۔

محمد اورنگزیب

محمد اورنگزیب معروف بینکر ہیں اور کابینہ میں شمولیت سے قبل وہ 2018 سے حبیب بینک کے صدر اور چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) تھے۔ ان کا شمار معتبر اور تجربہ کار بینکرز میں ہوتا ہے جنہیں پاکستان اور غیر ملکی بینکوں کا تین دہائیوں پر محیط تجربہ ہے۔

محمد اورنگزیب ان کا نام کئی سال تک پاکستان کے سب سے زیادہ تنخواہ لینے والے سی ای اوز کی سرفہرست میں شامل رہا ہے۔

محمد اورنگزیب نے امریکی ریاست پنسلوانیا کے شہر فلاڈیلفیا میں واقع پنسلوانیا یونیورسٹی کے وہرٹن سکول سے اکنامکس میں بیچلرز آف سائنس اور بعد میں ماسٹرز آف بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگریاں حاصل کیں۔

حبیب بینک لمیٹڈ کی ویب سائٹ کے مطابق محمد اورنگزیب نے اپنے کیریئر کا آغاز سٹی بینک سے کیا تھا، جس کے بعد وہ سٹی بینک نیو یارک چلے گئے تھے۔

جام کمال
جام کمال کا تعلق بلوچستان کے ایک سیاسی خاندان سے ہے اور 2018 سے 2021 تک صوبہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بھی رہے۔ وہ بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے رہنما تھے لیکن آٹھ فروری 2024 کے انتخابات سے قبل انہوں نے پاکستان مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔

وہ اس سے قبل 2013 سے 2018 کے درمیان بھی وفاقی کابینہ میں شامل رہے اور اس وقت بھی مرکز میں مسلم لیگ ن کی ہی حکومت تھی۔جام کمال کے والد جام یوسف بھی صوبہ بلوچستان کے وزیر اعلٰی رہ چکے ہیں۔

قیصر احمد شیخ

قیصر احمد شیخ نے 2024 کے عام انتخابات میں چنیوٹ کے حلقہ این اے 94 سے مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پر حصہ لیا اور کامیابی حاصل کر کے رکن قومی اسمبلی بنے۔

اس سے قبل وہ 2013 سے 2018 تک مسلم لیگ ن کی طرف سے قومی اسمبلی کے رکن رہے۔ 2013 میں انہوں نے جھنگ کے حلقے این اے 86 سے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن ہی کی ٹکٹ پر حصہ لیا اور کامیاب رہے تھے۔ 

2018 کے عام انتخابات میں چنیوٹ کے حلقے این اے 100 سے مسلم لیگ ن پر انتخاب جیت کر رکن قومی اسمبلی بنے۔

قیصر احمد شیخ صدر کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز بھی رہ چکے ہیں۔

عطا اللہ تارڑ

پاکستان مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے عطااللہ تارڑ نے یونیورسٹی آف لندن سے ایل ایل بی (آنرز) کی ڈگری حاصل کی ہے۔

وہ پاکستان مسلم لیگ ن کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل کے عہدے پر فائز رہے اور اس سے قبل ایڈیشنل سیکرٹری کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔

انہیں 2022 میں پنجاب حکومت کا ترجمان مقرر کیا گیا تھا، جب کہ حمزہ شہباز کی مختصر مدت بطور وزیر اعلیٰ پنجاب کے دوران عطا تارڑ صوبائی وزیر داخلہ بھی رہے۔  

2022 میں انہیں وزیر اعظم شہباز شریف نے خصوصی معاون، جو وفاقی وزیر کے عہدے کے برابر ہے، تعینات کیا تھا تاہم اسی سال دسمبر میں انہیں داخلہ اور قانونی امور پر مشیر مقرر کیا گیا تھا۔

جام کمال

جام کمال کا تعلق بلوچستان کے ایک سیاسی خاندان سے ہے اور 2018 سے 2021 تک صوبہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بھی رہے۔ وہ بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے رہنما تھے لیکن آٹھ فروری 2024 کے انتخابات سے قبل انہوں نے پاکستان مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔

وہ اس سے قبل 2013 سے 2018 کے درمیان بھی وفاقی کابینہ میں شامل رہے اور اس وقت بھی مرکز میں مسلم لیگ ن کی ہی حکومت تھی۔

جام کمال کے والد جام یوسف بھی صوبہ بلوچستان کے وزیر اعلٰی رہ چکے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست