سابق سفیروں اور بین الاقوامی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی منتخب حکومت کو معاشی خارجہ پالیسی کے لیے طاقتور ممالک کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے اور افغانستان اور انڈیا کے ساتھ دو طرفہ بات چیت سے باہمی شکایات کو دور کرنا چاہیے۔
عام انتخابات 2024 کے بعد بننے والی حکومت نے وفاقی کابینہ تشکیل دے دی ہے اور وزارت خارجہ کے لیے اسحاق ڈار کا نام چنا گیا ہے، جنہیں معیشت کا ماہر سمجھا جاتا ہے۔
مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں انہیں ہمیشہ وزارت خزانہ کا ہی قلمدان دیا جاتا رہا ہے لیکن اس مرتبہ انہیں وزارت خارجہ کا قلمدان دیا گیا ہے۔
اس کے بعد سے یہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ آیا خارجہ پالیسی میں اقتصادی نقطہ نظر کو ترجیح دی جائے گی تاکہ معیشت کی ترقی کے لیے تجارتی اتحاد بحال کیے جائیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے بین الاقوامی امور کے مختلف ماہرین سے اسی حوالے سے گفتگو کی تاکہ اسحاق ڈار کے دور میں خارجہ امور کو درپیش چیلنجوں پر روشنی ڈالی جاسکے۔
بین الاقوامی امور کے ماہر قمر چیمہ سمجھتے ہیں کہ اسحاق ڈار معاشی مسائل کو سمجھتے ہیں، لہذا وہ سرحدی ممالک کے ساتھ معاشی سفارت کاری میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پاکستان کچھ عرصے سے جیو سٹرٹیجک سے جیو اکنامک کی بات کر رہا ہے کہ ہم ملک کے معاشی راستے استوار کرنا چاہتے ہیں، لیکن انڈیا کے ساتھ تو ابھی تک حالات نارمل ہی نہیں ہو رہے تو بات کیسے ہو گی؟ شاید اسحاق ڈار وزارت خارجہ کی گائیڈ لائن تھوڑی تبدیل کر سکیں کہ دنیا میں پاکستان کو معاشی مارکیٹ کے طور پر پروجیکٹ کیا جائے، فی الحال کوئی لمبا چوڑا سکیورٹی مسئلہ نہیں ہے، اس لیے سرحدی ممالک کے ساتھ معاشی سفارت کاری کو بھی فروغ دینا ہو گا۔ اس کے لیے اسحاق ڈار کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب سابق سفارت کار عاقل ندیم سمجھتے ہیں کہ وزیر خارجہ بننے کے لیے وزارت خارجہ کے تجربے کی نہیں، حکومت سے قریب ہونے کی ضرورت ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’وزیر خارجہ کے لیے وزارت خارجہ کا کوئی تجربہ ہونا ضروری نہیں، ہر بار کوئی نہ کوئی پہلی بار ہی وزیر خارجہ بنتا ہے، جیسے شاہ محمود قریشی بھی پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں پہلی بار وزیر خارجہ بنے، اسی طرح حنا ربانی کو بھی جب وزیر خارجہ بنایا گیا تو وہ پہلی بار ہی بنی تھیں۔ ضروری یہ ہے کہ بطور وزیر آپ حکومت کے کتنے قریب ہیں۔‘
عاقل ندیم کے مطابق: ’اسحاق ڈار تین بار وزیر خزانہ رہ چکے ہیں اور بین الاقوامی فورمز پر اور عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ ڈیل کر چکے ہیں۔ معیشت اور معاشی تعلقات یقینی طور پر خارجہ پالیسی کا ایک اہم جزو ہیں، کیونکہ بین الاقوامی روابط میں وزارت خزانہ کو بھی وزارت خارجہ کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے اسحاق ڈار کو زیادہ مشکل پیش نہیں آئے گی۔ طارق فاطمی اور جلیل عباس جیلانی پر مشتمل تجربہ کار ٹیم بھی ان کے ساتھ ہے۔‘
سابق سفیر عبدالباسط سمجھتے ہیں کہ نئی حکومت اور وزیر خارجہ کو سفارتی معاشی پالیسی پر توجہ دینی چاہیے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’نئی حکومت اور وزیر خارجہ کو فوکس ڈپلومیسی کرنی چاہیے، اپنی معاشی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے علاقائی استحکام بلاشبہ ضروری ہے۔ اس کے لیے افغانستان اور انڈیا کے ساتھ پائیدار دو طرفہ بات چیت سے باہمی شکایات کو دور کرنا چاہیے۔‘
عبدالباسط کا مزید کہنا تھا: ’اس کے علاوہ سفارتی معاشی پالیسی کے لیے اسلام آباد کو ترقی یافتہ ممالک سے دوطرفہ تعلقات پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔‘
سابق سیکریٹری خارجہ سلمان بشیر نے بھی انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں اسی بات کی تائید کی اور کہا کہ ’نئی حکومت کو معاشی خارجہ پالیسی کے لیے طاقتور ممالک کے ساتھ تعلقات کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔‘
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا: ’سفارتی تعلقات میں معاشی استحکام کے اقدامات پر توجہ مرکوز کرنے میں تحمل سے کام لینا ہو گا۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔