پاکستان کے عام انتخابات سے قبل تشدد کے واقعات پر تشویش رہی: ڈونلڈ لو

جنوبی و وسطی ایشیائی امور کے امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری آف سٹیٹ ڈونلڈ لو نے امریکی ایوان نمائندگان کی کمیٹی میں بیان جمع کرایا ہے اور وہ آج کمیٹی میں پیش ہو کر پاکستان کے انتخابات سے متعلق بیان دیں گے۔

19 جولائی 2016 میں البانیہ میں تعینات امریکی سفیر ڈونلڈ لو ترانا میں سول سوسائٹی کی ریلی سے خطاب کر رہے ہیں (اے ایف پی)

جنوبی و وسطی ایشیائی امور کے امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری آف سٹیٹ ڈونلڈ لو نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان میں عام انتخابات سے قبل پرتشدد واقعات سامنے آئے، پولیس، سیاست دانوں اور سیاسی اجتماعات پر دہشت گرد حملے کیے گئے جبکہ صحافیوں خاص طور پر خواتین کو سیاسی جماعتوں کے حامیوں نے ہراساں کیا۔

ڈونلڈ لو کی جانب سے یہ بیان منگل کو امریکی ایوان نمائندگان کی کمیٹی میں جمع کروایا گیا ہے، جس میں ان کا کہنا تھا کہ آٹھ فروری 2024 کے عام انتخابات کے دوران کئی سیاسی رہنما اپنے مخصوص امیدوار اور پارٹیاں رجسٹرڈ نہ کروا سکے، الیکشن نگرانی کرنے والی تنظیم نے بتایا کہ انہیں پولنگ سٹیشنز تک رسائی سے روکا گیا جبکہ ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود الیکشن کے دن انٹرنیٹ سروس بند رکھی گئی۔

ڈونلڈ لو آج یعنی بدھ کو ایوان کی خارجہ امور سے متعلق ذیلی کمیٹی میں پیش ہو کر پاکستان کے حالیہ عام انتخابات سے متعلق بیان دیں گے۔

اس سماعت میں عام انتخابات کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پر بھی غور کیا جائے گا۔

جنوبی و وسطی ایشیائی امور کے اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ ڈونلڈ لو اِس سماعت کے واحد گواہ ہوں گے۔

پاکستان میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے امریکی سائفر سے متعلق الزامات میں ڈونلڈ لو کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کے سبب ان کی گواہی اہمیت رکھتی ہے۔

بانی تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کا الزام ہے کہ ڈونلڈ لو نے مارچ 2022 میں واشنگٹن میں اس وقت کے پاکستانی سفیر اسد مجید خان سے ملاقات کے دوران پی ٹی آئی حکومت کو غیرمستحکم کرنے کی دھمکی دی تھی۔

ڈونلڈ لو کے بیان کا متن

امریکی ایوان نمائندہگان کی کمیٹی میں جمع کروائے جانے والے تحریری بیان کا آغاز ڈونلڈ لو نے ماضی سے کیا اور کہا کہ ’31 سال قبل جب میں پشاور، پاکستان میں ایک جونیئر افسر تھا، تو میں نے پاکستانی الیکشن کو قریب سے دیکھا تھا۔ میں نے انتخابی بے ضابطگیوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی ووٹروں کی ہمت بھی دیکھی، جو تشدد اور دھمکیوں کے خطرے کے باوجود ووٹ ڈالنے کے لیے نکلے۔

’تین دہائیاں قبل یہ مقابلہ موجودہ وزیراعظم کے بھائی نواز شریف اور مرحومہ بے نظیر بھٹو کے درمیان تھا، جن کے صاحبزادے اور شوہر اب پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کر رہے ہیں۔

’آج میں چند الفاظ کہنا چاہتا ہوں کہ آٹھ فروری 2024 کو ہونے والے انتخابات میں کہاں خامیاں تھیں، ہم نے مثبت عناصر کہاں دیکھے اور امریکی پالیسی میں پاکستان کے لیے مستقبل میں کیا رکھا ہے۔‘

انہوں نے اپنے بیان میں امریکی محکمہ خارجہ کے ان بیانات کا تذکرہ بھی کیا جو سات جنوری 2024 کو دیے گئے تھے۔

ان بیانات میں اظہار رائے، حمایت کے اظہار اور پرامن اجتماع کی آزادیوں پر غیر ضروری پابندیاں، انتخابی تشدد اور انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں پر پابندیوں کی مذمت، میڈیا ورکرز پر حملوں اور انٹرنیٹ اور ٹیلی کمیونیکیشن سروسز تک رسائی پر پابندیوں کی مذمت اور انتخابی عمل میں مداخلت کے الزامات پر تشویش کا اظہار شامل تھا۔

ڈونلڈ لو نے کہا: ’ہم خاص طور پر انتخابی بے ضابطگیوں اور تشدد کے بارے میں فکر مند تھے جو انتخابات سے قبل کے ہفتوں میں ہوئے تھے۔ سب سے پہلے تو دہشت گرد گروپوں کی طرف سے پولیس، سیاست دانوں اور سیاسی اجتماعات پر حملے ہوئے۔ دوسرا، بہت سے صحافیوں بالخصوص خواتین صحافیوں کو، پارٹی کے حامیوں کی طرف سے ہراساں کیا اور بدسلوکی کا نشانہ بنایا گیا اور متعدد سیاسی رہنماؤں کو مخصوص امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کو رجسٹر کرانے سے محرومی کا نقصان اٹھانا پڑا۔‘

انتخابی شمولیت میں اضافہ

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جنوبی و وسطی ایشیائی امور کے امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری آف سٹیٹ ڈونلڈ لو نے اپنے تحریری بیان میں مثبت چیزوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’ان انتخابات میں مثبت عناصر بھی تھے۔ تشدد کی دھمکیوں کے باوجود، چھ کروڑ سے زیادہ پاکستانیوں نے ووٹ ڈالے، جن میں دو کروڑ 10 لاکھ خواتین بھی شامل ہیں۔

’ووٹرز نے 2018 کے مقابلے میں 50 فیصد زیادہ خواتین کو پارلیمنٹ کے لیے منتخب کیا۔ خواتین امیدواروں کی ریکارڈ تعداد کے علاوہ، مذہبی اور لسانی اقلیتی گروپوں کے اراکین اور نوجوانوں نے بھی پارلیمنٹ میں نشستوں کے لیے الیکشن لڑا۔‘

ڈونلڈ لو کے مطابق پاکستان میں ووٹرز کے پاس انتخاب کا موقع تھا اور کئی سیاسی جماعتوں نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں جیتیں جن میں سے تین مختلف سیاسی جماعتیں اب پاکستان کے چاروں صوبوں کی قیادت کر رہی ہیں۔ پانچ ہزار سے زیادہ آزاد مبصر فیلڈ میں تھے اور اس کا نتیجہ یہ تھا کہ انتخابات کا انعقاد بڑی حد تک مسابقتی اور منظم تھا جبکہ نتائج مرتب کرنے میں کچھ بے ضابطگیاں نوٹ کی گئیں۔

امریکی پالیسی

ڈونلڈ لو نے مزید کہا کہ ’پاکستان امریکہ کا اہم پارٹنر ہے۔ ہم پاکستان کے جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے، یو ایس پاکستان گرین الائنس فریم ورک کی حمایت، القاعدہ اور آئی ایس آئی ایس جیسے گروپوں سے دہشت گردی کے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے تعاون اور مذہبی آزادی سمیت انسانی حقوق کے احترام کو تقویت دینے کے عزم میں شریک ہیں۔

’سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکہ پاکستان میں مستحکم اقتصادیات کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ہم پاکستان کی برآمدات کے لیے بھی سرفہرست ملک ہیں۔ ہم اہم انفراسٹرکچر میں سب سے اہم سرمایہ کاروں میں سے ایک رہے ہیں۔ ہم اپنی شراکت کے 76 برسوں کے دوران اہم انفراسٹرکچر میں سب سے اہم سرمایہ کار رہے ہیں۔‘

ڈونلڈ لو نے مثال کے طور پر منگلا اور تربیلا ڈیموں کی تجدید کی مثال دی جو لاکھوں پاکستانیوں کو بجلی فراہم کرتے ہیں اور امریکی حکومت ان کی مرمت کر رہی ہے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ