پاکستان میں سی پیک جس دھوم دھام سے شروع ہوا تھا، اب اس میں وہ تیزی نظر نہیں آ رہی۔
سیاسی جماعتوں نے سی پیک کو الیکشن مدعا کے طور پر جس طرح استعمال کیا ہے عام آدمی کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہو گیا ہے کہ سی پیک کا مستقبل کیا ہو گا؟
کیا یہ منصوبہ مکمل ہونے سے واقعی پاکستان ترقی کر جائے گا یا نہیں؟ ایک عام پاکستانی کی ضرورت روٹی، کپڑا، روزگار اور مکان ہے۔
سی پیک شروع ہونے کے تقریباً گیارہ سال کے بعد بھی مہنگائی اور بے روزگاری عروج پر ہے اور آنے والے دنوں میں اس میں مزید اضافہ دکھائی دے رہا ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سی پیک کیوں شروع کیا گیا اور مستقبل میں اس کا فائدہ عام آدمی تک پہنچ بھی سکے گا اور کیا عام آدمی کے حالات بھی بدلیں گے یا نہیں؟
انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے حقائق جاننے کی کوشش کی ہے۔
سی پیک بیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا ایک بہت اہم حصہ ہے جس کی باقاعدہ بنیاد سنہ 2013 میں رکھی گئی تھی۔
اس منصوبے کے تحت چین نے پاکستان میں 17 سالوں میں 62 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنا تھی۔ اپریل 2015 میں 46 ارب ڈالر کی 51 یادداشتوں پر دستخط کیے گئے۔
نومبر 2017 میں لانگ ٹرم معاہدے کی مدت کے سمجھوتے پر دستخط کیے گئے جس کا دورانیہ 2017 سے 2030 ہے۔پہلا مرحلہ 2020 تک مکمل ہونا تھا۔ درمیانی مرحلہ 2025 تک اور تیسرا مرحلہ 2030 تک مکمل ہونا تھا۔
اب تک تقریباً 25 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری والے تقریباً 28 منصوبے مکمل ہوئے ہیں جبکہ تقریباً 37 ارب ڈالرز سے زیادہ والے 62 منصوبے یا تو شروع ہی نہیں ہوئے یا نامکمل ہیں۔
بظاہر اس کا مقصد پاکستان کو انفراسٹرکچر اور توانائی میں مضبوط کرنا تھا تا کہ روزگار پیدا ہو اور بیرونی سرمایہ کاری آ سکے اور چین اس منصوبے کے ذریعے اپنی تجارت کو فروغ دینا چاہتا تھا۔ گیارہ سال بعد بھی دونوں مقاصد حاصل نہیں ہو سکے۔
کوئٹہ چیمبر آف کامرس کے سینیئر نائب صدر آغا گل خلجی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’سی پیک کے تحت بلوچستان میں کوئی خاص کام نہیں ہوا ہے۔ گودار بندرگاہ سی پیک کا مرکزی منصوبہ ہے۔
’گوادر بندرگاہ کا معاہدہ بھی عجیب ہے۔ اس میں 91 فیصد ریونیو شیئر چین کا ہے اور باقی پاکستان کا۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سے زیادہ فائدہ کس کو ہو گا اور کس کا مفاد زیادہ ہے۔
’اس کے علاوہ گوادر پورٹ پر جتنی ٹریفک آنی تھی، اس کا دس فیصد بھی نہیں آ رہی۔ سی پیک مکمل تو ہو گا لیکن کب ہوگا اس بارے کوئی دعوی نہیں کیا جا سکتا۔‘
کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جزل سیکرٹری ظفر پراچہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پاکستان میں زرمبادلہ کے ذخائر کا مسئلہ چینی قرض ہیں۔ صرف چینی پاور کمپنیوں کا بل تقریبا 500 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔
’اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ سی پیک منصوبوں کو ری ڈیزائن کیا جائے۔ چین منصوبے بنائے، انہیں پندرہ بیس سال چلائے اور جب رقم پوری ہو جائے تو پاکستان کے حوالے کر دے جیسا کہ عمومی طور پر ہوتا ہے۔
’اگر سی پیک منصوبے پرانی شرائط پر چلتے رہے تو پاکستان کبھی بھی اس مکڑی کے جال سے نہیں نکل پائے گا۔ موجودہ شرائط پر سی پیک کا مکمل ہونا پاکستان کے لیے نقصان دہ ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ ’سکیورٹی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ جس نے سی پیک کو متاثر کیا۔ سن 2022 میں چینی انجنیئرز پر ہونے والے حملے کے بعد سی پیک پر کام کرنے والے اکثر انجنیئرز کو واپس چین بھیج دیا گیا تھا۔ جس سے سی پیک پر کام تقریباً رک گیا تھا۔‘
سیالکوٹ چمبر آف کامرس کے سابق صدر میاں نعیم جاوید کے مطابق ’بن قاسم سپیشل اکنامک زون کو استعمال کرنے کی بجائے نئے زون بنائے گئے جس کی دلیل یہ تھی کہ چین پاکستان میں انڈسٹری لگائے گا۔
’چین میں مزدوری مہنگی ہے پاکستان بہترین متبادل ہو گا، لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ بلکہ قرض 28 بلین ڈالرز سے بھی زیادہ بڑھ گیا جو عوام نے ادا کرنا ہے۔‘
سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’سی پیک اکنامک کے ساتھ ڈپلومیٹک ایشو بھی ہے۔ وزیراعظم چائنا جا رہے ہیں اس کے بعد ہی اندازہ ہو سکے گا کہ حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔
’سکیورٹی کے ایشوز ضرور ہیں لیکن چائنا کو اس حوالے سے سمجھنا چاہیے۔ پاکستان بہترین کوشش کر رہا ہے۔‘
ان کے مطابق ’پاکستان رواں سال 300 ملین ڈالرز کے پانڈا بانڈز چینی مارکیٹ میں جاری کرے گا۔ چینی سرمایہ کار پانڈا بانڈز سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور پاکستان کی فنڈنگ کےذرائع وسیع ہو سکتے ہیں۔
’ایک طرف بانڈز جاری کرنے کی بات کی جا رہی ہے اور دوسری طرف پاکستان نے آئی ایم ایف کو یقین دلایا ہے کہ پاکستان چینی آئی پی پیز کے 493 ارب ادا کرنے کے لیے مزید بجٹ مختص نہیں کرے گا۔
’جبکہ چینی حکومت کی جانب سے بجٹ مختص کرنے کے لیے کئی مرتبہ دباؤ بڑھایا گیا ہے۔ اس وقت چین سی پیک میں مزید سرمایہ کاری میں محتاط ہو گیا ہے اور اگلے مہینوں میں چین سے تعلقات خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔‘
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔