انڈیا کے دارالحکومت دہلی کی مشہور جواہر لال نہرو یونیورسٹی اپنی تعلیم اور ڈھابہ کلچر کی وجہ سے مشہور ہے جہاں طلبہ وطالبات دیر رات تک بیٹھتے ہیں، چائے پیتے ہوئے نشست جماتے ہیں۔
یہاں ایک درجن ڈھابے ہیں، مگر ایک ڈھابہ والا بہت مشہور ہے، جو کہ ماموں ڈھابہ والے کے نام سے جانا جاتا ہے۔
یہ ڈھابہ چلانے والی شخصیت بہار سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر شہزاد ابراہیمی ہیں جنہوں نے اردو زبان میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔
ڈاکٹر شہزاد کی زندگی کی کہانی بہت ہی دلچسپ ہے۔ 20 سال پہلے شہزاد ابراہیمی نے اردو زبان و ادب میں پی ایچ ڈی مکمل کی اور پھر اپنی مادر علمی میں ہی چائے کا ڈھابہ کھول لیا۔ لائبریری سے متصل یہ ڈھابہ شام ہوتے ہی آباد ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
لائبریری سے آتے جاتے طلبا و طالبات کے علاوہ پروفیسرز بھی چائے نوشی کے لیے یہاں رکتے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے شہزاد ابراہیمی نے بتایا کہ انہوں نے اردو میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ڈھابہ چلانے کا فیصلہ کیا اور بڑی لگن سے اس کام کو آگے بڑھایا۔
شہزاد ابراہیمی کے مطابق جے این یو سے فراغت کے بعد انہوں نے نوکری تلاش کی، ایک ملازمت ایک ٹی وی میں ملی، جہاں ان کا دل نہیں لگا۔ ان کے مطابق ’’نوکری میں میرا دل نہیں لگا۔ ای ٹی وی جوائن کیا اور چھوڑ دیا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اہلیہ سے مشورہ کر کے ہم دونوں نے جے این یو میں ایک ڈھابہ کھول لیا اور اب یہ ڈھابہ ماموں ڈھابہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’جتنی محنت میں نے پی ایچ ڈی مقالہ لکھنے میں کی تھی اس سے کہیں زیادہ وقت اور زیادہ محنت اپنے ڈھابہ کو چلانے میں لگایا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اگر میں اپنے ڈھابے پر کتاب لکھتا تو چار کتابیں کم سے کم لکھ چکا ہوتا۔ تقریباً 20 سالوں تک ہم اس پر خوبصورت تجربے کرتے رہے، اس کو ہم نے ایک لیب بنا دیا ہے۔‘
ڈاکٹر شہزاد کے مطابق ’بہت ساری چیزیں ہیں، جیسے کچھ سستے ڈھابے بھی ہیں کچھ مہنگے ڈھابے بھی ہیں۔ پانچ روپے اور دس روپے کا سموسہ مل جائے گا۔ شام کے وقت میں پکوڑے مل جائیں گے۔
’سب ڈھابوں کی الگ الگ خصوصیت ہے اور الگ الگ ٹائمنگ ہے۔ یہاں میں چائے، میگی، ٹوسٹ اور پنیر ٹوسٹ، آلو ٹوسٹ، آلو کلچہ وغیرہ بیچ کر اس تہذیب کو اور اپنی جاگیر کو زندہ رکھے ہوئے ہوں۔‘
ڈاکٹر شہزاد نے چونکہ اردو زبان میں پی ایچ ڈی کی ہے، اس لیے اردو سے ان کا والہانہ لگاؤ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’کچھ غیر اردو والے یہاں آتے ہیں تو میں ان کو غالب اور میر و مومن کے اشعار سناتا رہتا ہوں۔ میں یہاں آنے والے ایسے کسٹمرز کو شاعری سنا کر اردو کی خدمت کر رہا ہوں جنہیں اردو شاعری میں دلچسپی ہوتی ہے۔‘