پاکستان میں ایکس (سابقہ ٹوئٹر) کی بندش کے بعد پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت نے بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر نگرانی کے لیے حکومتی سطح پر مانیٹرنگ کمیٹی قائم کر دی ہے۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت نے عوامی شخصیات، سرکاری حاضر سروس و ریٹائرڈ افسران کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بدنام کرنے، دھمکانے اور بلیک میلنگ کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے سوشل میڈیا مانیٹرنگ کمیٹیاں قائم کی ہیں جنہیں صحافی، وکلا اور سول سوسائٹی نے آزادی اظہار رائے پر حملہ قرار دیا ہے۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے محکمہ داخلہ کی جانب سے مانیٹرنگ کمیٹیوں کے قیام سے متعلق نوٹیفکیشن کے مطابق سوشل میڈیا پر عوامی شخصیات، سرکاری حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسران کو بدنام کرنے، دھمکانے اور بلیک میل کرنے والے اشخاص کے خلاف فوجداری مقدمات کے تحت حکومت کو قانونی کارروائی کا اختیار ہو گا۔
حکومتی نوٹیفکیشن کو مبینہ طور پر ابھی تک پوشیدہ رکھا گیا تھا تاہم اس کے منظر عام پر آنے کے بعد انڈیپینڈنٹ اردو نے ڈائریکٹر محکمہ تعلقات عامہ شاہد کھوکھر سے رابطہ کیا، جنہوں نے نوٹیفیکیشن کی صحت کی تصدیق کی ہے۔
نوٹیفیکیشن کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر منظر عام پر آنے کے بعد پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا کہ آیا حکومت کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر بندش یا نگرانی کا اختیار رکھتی ہے یا نہیں؟
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے سینیئر قانون دان ایڈوکیٹ سپریم کورٹ راجہ امجد علی خان نے اس حوالے سے انڈیپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے بنیادی طور پر اس نوٹیفکیشن میں کسی نئے جرم کی نشاندہی کے لیے کمیٹیاں بنانے فیصلہ نہیں کیا۔
انہوں نے کہا: ’کشمیر میں سائبر کرائم ایکٹ موجود ہے۔اسی ایکٹ کی بنیاد پر یہ کمیٹیاں بنائی گئی ہیں اور اگر کمیٹیاں اپنا کام کرتی ہیں تو وہ سائبر کرائم ایکٹ کے تناظر میں ہی اپنی سفارشات دے سکتی ہیں۔
’قانونی طور پر کسی بھی شخص کے خلاف کارروائی قانون کی دفعات کے مطابق عمل میں لائی جاتی ہے البتہ حکومت نے اب سوشل میڈیا مانیٹرنگ کے لیے اپنا ایک الگ سیٹ اپ ضرور قائم کر دیا ہے، جس کا کام ہی سوشل میڈیا کی نگرانی کرنا ہو گا۔‘
راجہ امجد علی خان ایڈوکیٹ کا مزید کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر اپلوڈ کیے جانے والے متعلقہ مواد سے متعلق تھانے کے ایس ایچ او کو سائبر کرائم ایکٹ کے تحت ایف آئی آر درج کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔
’لیکن حکومت کی طرف سے اب اس معاملے پر پورا ایک سرکاری سیٹ اپ بنانا ایک ایسا عمل ہے کہ جس کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ ریاست کے پاس کوئی اور کام نہیں ماسوائے اس کے کہ وہ اپنے خلاف ہونے والی تنقید کو مانیٹر کرے اور اس پر کارروائیاں کرے۔‘
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’نگرانی کرنے والی کمیٹیوں کے ذریعے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کرپشن اور ریاستی وسائل کی لوٹ مار کے خلاف بڑھتے ہوئے عوامی شعور اور مزاحمت کو دباؤ میں لانے کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مظفرآباد سے تعلق رکھنے والے صحافی ذوالفقار علی نے مؤقف اختیار کیا کہ اس نوٹیفکیشن کی آڑ میں حکومت صحافیوں کو نشانہ بنانا چاہتی ہے۔
’یہ حکومت تنقید سے گھبرا رہی ہے۔ حکومت معلومات تک رسائی کا حق تو عوام کو تو نہیں دے رہی لیکن سرکاری افسران اور حکمران اشرافیہ کے بارے میں صحافیوں اور مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کی تنقید سے بچنے کے لیے اس قانون کا سہارا لیا جا رہا ہے۔‘
صحافی خواجہ کاشف میر نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم انوار الحق پر اقتدار میں آتے ہی میڈیا پرسنز اور میڈیا ہاؤسز پر پابندیاں لگانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ صحافی جو ایشوز پر اپنی رائے دیتے ہیں، اپوزیشن اور عوام کے احتجاج کو بھرپور کوریج دیتے ہیں ان پر مقدمات قائم کرنے اور گرفتار کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں اور اس نوٹیفکیشن کا مقصد بھی آزادی رائے کو کچلنا ہے۔‘
صحافی و سابق صدر مرکزی ایوانِ صحافت مظفر آباد سجاد قیوم میر کا خیال تھا کہ نگرانی کرنے والی کمیٹیوں میں شامل افراد کو سوشل میڈیا کی مانیٹرنگ یا سوشل میڈیا کے استعمال کا اندازہ ہے نہ ان کی اس شعبے میں کوئی مہارت ہے۔
پاکستان زیر انتظام کشمیر مظفرآباد کی کشمیر سول سوسائٹی کے صدر راجہ آفتاب نے اس کمیٹیوں کے قیام کو اس حد تک خوش آئند قرار دیا کہ سوشل میڈیا پر ملکی سلامتی، مذہبی منافرت اور فتنہ انگیزی کرنے والے عناصر کی حوصلہ شکنی کے لیے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔