طالبان افغانستان میں مزید سیاحوں کی آمد کے منتظر

عالمی سطح پر افغانستان کے حکمرانوں کی پوزیشن اتنی مضبوط نہیں۔۔۔ معیشت مشکلات کا شکار ہے، بنیادی ڈھانچہ خراب ہے اور غربت بہت زیادہ ہے، لیکن غیر ملکی پھر بھی اس ملک میں آ رہے ہیں، جن کی تعداد پچھلے برس سات ہزار کے قریب تھی۔

14 جولائی 2022 کی اس تصویر میں افغانستان کے صوبے بامیان میں لوگ ایک کشتی میں سوار ہیں (اے ایف پی/ احمد ساحل ارمان)

تقریباً 30 افراد کو کابل کے ایک کلاس روم میں بٹھایا گیا ہے، جو طالبان کے زیر انتظام سیاحتی تربیتی ادارے میں طالب علموں کے پہلے گروپ کا حصہ ہیں۔

ایک طالب علم ایک ماڈل ہے۔ دوسرا 17 سال کا ہے اور اس نے کبھی کوئی ملازمت نہیں کی۔

وہ سبھی مرد ہیں جبکہ افغان خواتین پر چھٹی جماعت سے آگے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی ہے۔ یہ لوگ سیاحت یا مہمان نوازی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، لیکن افغانستان کے ایک مختلف پہلو کی تشہیر کے خواہاں ہیں اور طالبان بخوشی ان کی مدد کر رہے ہیں۔

عالمی سطح پر افغانستان کے حکمرانوں کی پوزیشن اتنی مضبوط نہیں، جس کی بڑی وجہ خواتین اور لڑکیوں پر ان کی پابندیاں ہیں۔

معیشت مشکلات کا شکار ہے، بنیادی ڈھانچہ خراب ہے اور غربت بہت زیادہ ہے۔ غیر ملکی پھر بھی اس ملک میں آ رہے ہیں کیونکہ اب وہاں تشدد کم ہے، پروازیں بالخصوص دبئی جیسی جگہوں سے بہتر انداز میں آتی جاتی ہیں اور یہ منفرد ہے، جس کی وجہ سے یہ چھٹیاں گزارنے والوں کے لیے پرکشش ہے، لیکن سیاحوں کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے۔

2021 میں 691 غیر ملکی سیاح آئے۔ 2022 میں یہ تعداد بڑھ کر 2300 ہو گئی۔ پچھلے سال یہ تعداد سات ہزار تھی۔

کابل میں ٹورازم ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ محمد سعید نے کہا کہ غیر ملکی سیاحوں کی سب سے بڑی مارکیٹ چین ہے کیونکہ وہ قریب ہے اور اس کی آبادی بہت زیادہ ہے۔

سعید نے کہا کہ ’جاپانیوں نے مجھے بتایا کہ وہ پاکستان نہیں جانا چاہتے کیونکہ یہ خطرناک ہے اور وہاں ان پر حملے ہوتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے اچھا ہے۔‘

لیکن کچھ نقصانات بھی ہیں۔ ویزا تک رسائی مشکل اور مہنگی ہے۔

طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد بہت سے ممالک نے افغانستان کے ساتھ تعلقات منقطع کر دیے اور کوئی بھی ملک انہیں ملک کا جائز حکمران تسلیم نہیں کرتا۔

افغان سفارت خانے یا تو بند یا معطل کر دیے گئے ہیں جبکہ کچھ سفارت خانوں اور قونصل خانوں کے درمیان اقتدار کی کشمکش جاری ہے جس میں سابق مغربی حمایت یافتہ انتظامیہ اور طالبان انتظامیہ کے مکمل کنٹرول میں رہنے والے افراد کام کرتے ہیں۔

سعید تسلیم کرتے ہیں کہ افغان سیاحت کی ترقی میں رکاوٹیں ہیں لیکن انہوں نے کہا کہ وہ ان پر قابو پانے کے لیے وزارتوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حتمی مقصد سیاحوں کے لیے ویزا آن آرائیول ہے، لیکن اس میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ سڑک کے نیٹ ورک میں مسائل ہیں، جو ملک کے کچھ حصوں میں آدھا پختہ ہے یا بالکل ہے ہی نہیں، اور ایئر لائنز بڑی حد تک افغان فضائی حدود سے گریز کرتی ہیں۔

دارالحکومت کابل میں سب سے زیادہ بین الاقوامی پروازیں اترتی ہیں، لیکن کسی بھی افغان ہوائی اڈے پر چین، یورپ یا انڈیا جیسی بڑی سیاحتی مارکیٹوں کے ساتھ براہ راست راستے نہیں ہیں۔

مسائل کے باوجود سعید چاہتے ہیں کہ افغانستان سیاحت کا ایک پاور ہاؤس بن جائے۔ یہ ایک ایسا عزم ہے، جسے بظاہر طالبان کے سرکردہ رہنماؤں کی حمایت حاصل ہے۔

انہوں نے کہا: ’مجھے بزرگوں (وزرا) کی ہدایت پر اس محکمے میں بھیجا گیا ہے۔ انہیں مجھ پر بھروسہ کرنا چاہیے کیونکہ انہوں نے مجھے اس اہم جگہ پر بھیجا ہے۔‘

طالب علموں کی بھی خواہش ہے۔ ماڈل احمد مسعود طالش انسٹاگرام پوسٹس کے لیے افغانستان کے خوبصورت مقامات اور میڈیا میں آنے کے لیے اس کی تاریخ کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔

بزنس سکول کے گریجویٹ سمیر احمدزئی ایک ہوٹل کھولنا چاہتے ہیں لیکن ان کا خیال ہے کہ انہیں پہلے سیاحت اور مہمان نوازی کے بارے میں مزید جاننا چاہیے۔

احمدزئی نے کہا کہ ’لوگوں نے افغانستان کی پسماندگی، غربت اور جنگ کے بارے میں سنا ہے۔ ہماری پانچ ہزار سال کی تاریخ ہے۔ افغانستان کا ایک نیا صفحہ ہونا چاہیے۔‘

کلاسوں میں افغان دستکاری اور انسانیت کی بنیادی باتیں شامل ہیں۔

ایک غیر سرکاری موضوع یہ ہے کہ غیر ملکی خواتین کے ساتھ کس طرح بات چیت کی جائے اور ان کا رویہ یا عادات مقامی رسم و رواج اور احکامات کے کس طرح منافی ہو سکتا ہے۔

اس کی مثالیں یہ ہو سکتی ہیں کہ خواتین عوامی مقامات پر سگریٹ نوشی یا کھانا کھاتی ہیں یا ان مردوں کے ساتھ آزادانہ طور پر میل جول کرتی ہیں، جو ان سے خون یا ازدواجی تعلق نہیں رکھتے۔

طالبان نے خواتین کے لیے ڈریس کوڈ نافذ کر رکھا ہے اور ان کے لیے لازمی ہے کہ سفر کے دوران مرد سرپرست یا محرم لازمی ان کے ساتھ ہو۔ اکیلے کھانا کھانا، اکیلے سفر کرنا اور عوامی مقامات پر دوسری خواتین کے ساتھ میل جول کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ خواتین کے لیے جم بند ہونے اور بیوٹی سیلون پر پابندی کے ساتھ، ایسی جگہیں کم ہیں جہاں وہ گھر سے باہر مل سکتی ہوں۔

ملک میں مزید غیر ملکی سیاحوں کی آمد کے لیے تیاریوں کا ایک اشارہ یہ ہے کہ ملک کے واحد فائیو سٹار ہوٹل سرینا نے ایک ماہ کی بندش کے بعد غیر ملکی خواتین کے لیے سپا اور سیلون دوبارہ کھول دیا ہے۔

سروسز تک رسائی حاصل کرنے کے لیے غیر ملکیوں کو اپنا پاسپورٹ دکھانا ضروری ہے۔ جن خواتین کے شناختی کارڈ پر ’افغانستان میں پیدا ہوئی‘ درج ہو ان پر پابندی ہے۔

افغان خواتین اور لڑکیوں پر عائد پابندیوں کا اثر غیر ملکی ٹریول کمپنیوں پر پڑتا ہے، جن کا کہنا ہے کہ وہ عطیات دے کر، مقامی منصوبوں کی حمایت کرکے یا صرف خاندان کے زیر انتظام کاروباروں کا دورہ کرکے ثقافتی رابطوں کے مثبت پہلو پر توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

راکی روڈ ٹریول کے بانی شین ہوران نے کہا کہ افغانستان کے دورے کو کسی خاص حکومت یا سیاسی حکومت کی توثیق کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔

’بالآخر، مقصد ذمہ دارانہ سیاحتی طریقوں کی حمایت کرنا ہونا چاہیے جو مقامی معیشت میں مثبت کردار ادا کرتے ہیں اور باہمی احترام اور تفہیم کو فروغ دیتے ہیں، جبکہ افغانستان میں وسیع تر سیاسی سیاق و سباق سے بھی آگاہ رہتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ حکام کی جانب سے اس بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں کہ ٹور گروپوں نے کیا دیکھا یا کیا اور یہ کہ کمپنی افغانستان میں خواتین کے حقوق کی ایک تنظیم کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔

ہوران نے مزید کہا کہ ٹور کی لاگت کا ایک فیصد اس تنظیم کے پروگراموں کی حمایت میں لگایا جاتا ہے۔

انسٹی ٹیوٹ آف ٹورازم اینڈ ہوٹل مینیجمنٹ میں کوئی خاتون نہیں ہیں۔ طالب علموں نے اس کا ذکر نہیں کیا، لیکن ٹورازم ڈائریکٹوریٹ کے ایک افسر نے اس کا ذکر کیا۔

افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’یہ ایک دل دہلا دینے والی صورت حال ہے۔ یہاں تک کہ فیملی کی خواتین بھی پوچھتی ہیں کہ کیا وہ یہاں پڑھ سکتی ہیں، لیکن حکومت کی تبدیلی کے ساتھ پالیسی میں بھی تبدیلی آئی۔ وہ خواتین جو (قبضے) سے پہلے تعلیم حاصل کر رہی تھیں، وہ کبھی واپس نہیں آئیں۔ انہوں نے کبھی گریجویشن نہیں کیا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا