آئرلینڈ اور انگلینڈ کے دورے کے لیے ایک پاکستانی کرکٹ ٹیم سلیکشن کمیٹی نے منتخب کی اور کئی پاکستانی ٹیمیں سوشل میڈیا کے سینکڑوں ’سلیکٹر حضرات‘ نے منتخب کردیں، جیسا کہ اب یہ معمول بن چکا ہے کہ ہر دوسرا شخص ایکسپرٹ بنا ہوا ہے۔
یہ تحریر آپ کالم نگار کی آواز میں یہاں سن سکتے ہیں:
اپنی رائے کا اظہار یقیناً ہر ایک کا بنیادی حق ہے لیکن اس پورے معاملے کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ سوشل میڈیا میں ایک عام شخص ہی نہیں بلکہ کچھ سپورٹس صحافی حضرات بھی اپنی پسند کے کھلاڑیوں کی محبت اور جنہیں وہ پسند نہیں کرتے ان کی مخالفت میں بہت آگے جا چکے ہیں بلکہ سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہیں۔
یہ وہ حضرات ہیں جو آج کل اپنے اداروں کے بجائے سوشل میڈیا کو زیادہ وقت دیتے دکھائی دے رہے ہیں۔
ان کے اپنے ادارے جو ان کے لیے اب پارٹ ٹائم جاب بن چکے ہیں ان سے یہ تک نہیں پوچھتے کہ وہ سوشل میڈیا کی فل ٹائم جاب کرتے ہوئے اپنی پوسٹ میں کس طرح کی زبان اپنے مخالفین کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ نہ اداروں کی کوئی پالیسی نظر آتی ہے نہ اخلاقی حدود۔
انگلینڈ اور آئرلینڈ کے دورے کے لیے پاکستان کرکٹ ٹیم کی سلیکشن اس لیے بھی اہم ہے کہ اس ٹیم کے اٹھارہ کھلاڑیوں میں سے تین کو ورلڈ کپ سکواڈ میں جگہ نہیں مل سکے گی اور وہ امریکہ کی فلائٹ پر سوار ہونے کے بجائے وطن واپسی اختیار کریں گے، گویا آئرلینڈ کے خلاف تین ٹی ٹوئنٹی میچوں اور پھر انگلینڈ کے خلاف پہلے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کے بعد یہ صورتحال واضح ہوجائے گی کہ وہ تین کھلاڑی کون ہوں گے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے 18 کھلاڑیوں کی سلیکشن کا اعلان کرتے ہوئے سات رکنی سلیکشن کمیٹی ہنستے مسکراتے اور قہقہے لگاتے ہوئے کئی سوالات کے جوابات اپنی پریس کانفرنس میں دے چکی لیکن ابھی بھی کئی سوالات ذہنوں میں موجود ہیں۔
پہلی بات جو ہر مرتبہ ٹیم سلیکشن کے موقع پر تازہ ہوجاتی ہے وہ ہے ہر کھلاڑی کے لیے سلیکشن کے الگ الگ پیمانے۔
مطلب اگر کسی ایک خاص ایونٹ کی پرفارمنس پر کسی کھلاڑی کا سلیکشن ہوتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اسی ایونٹ کی پرفارمنس پر کوئی دوسرا کھلاڑی سلیکٹ نہ ہوسکے جبکہ اس کی پرفارمنس زیادہ متاثر کن رہی ہو جیسا کہ گزشتہ سال کی پی ایس ایل میں سب سے زیادہ 23 وکٹیں لینے والے عباس آفریدی کو پاکستان ٹیم میں آنے کے لیے انتظار کرنا پڑا تھا اور اس مرتبہ اسی طرح کی مایوسی کا شکار ہونے والے لیگ اسپنر اسامہ میر ہیں۔
اسامہ میر اس سال پی ایس ایل میں سب سے زیادہ 24 وکٹیں حاصل کرنے والے بولر ہیں لیکن بدقسمتی سے ان پر ایک اور لیگ سپنر ابرار احمد کو ترجیح دی گئی جنہوں نے اسی پی ایس ایل میں 16 وکٹیں حاصل کی تھیں۔
اسامہ میر پر ابرار احمد کو ترجیح دینے کے بارے میں سلیکشن کمیٹی کے رکن عبدالرزاق کا کہنا ہے کہ اسامہ میر اور شاداب خان ایک جیسے بولر ہیں جبکہ ابرار احمد مسٹری بولر ہیں لہذا انہیں ٹیم میں شامل کیا گیا ہے۔
نیوزی لینڈ کے خلاف حالیہ سیریز میں اسامہ میر اور ابرار احمد دونوں کو برابر مواقع ملے اور دونوں نے ایک ایک میچ میں اچھی کارکردگی دکھائی۔ ابرار احمد نے ایک جانب مارک چیپمین اور جمی نیشم کی وکٹیں حاصل کیں تو دوسری جانب اسامہ میر نے آخری ٹی ٹوئنٹی میں ٹم سائفرٹ اور مارک چیپمین کی وکٹیں حاصل کرکے پاکستان ٹیم کی جیت میں اہم کردار ادا کیا۔
ابرار احمد انڈیا میں ہونے والے ورلڈ کپ میں جب ٹیم میں سلیکٹ نہیں ہوئے تھے تو اس وقت کافی شور مچا ہوا تھا کہ ان کی مسٹری بولنگ ٹیم کے لیے فائدہ مند ثابت ہوسکتی تھی اس وقت ان پر اسامہ میر کو ترجیح دی گئی تھی لیکن وہ ورلڈ کپ میں توقعات پر پورا نہیں اتر پائے تھے۔
اب دیکھنا یہ ہوگا کہ ابرار احمد کی مسٹری لیگ سپن کیا اثر دکھاتی ہے کیونکہ اب کرکٹ اتنی ایڈوانس ہوچکی ہے کہ حریف ٹیموں کے لیے اب کچھ بھی مسٹری نہیں۔
اس سلیکشن میں اگر اسامہ میر کی بدقسمتی کہی جاسکتی ہے کہ وہ ٹیم میں نہ آسکے تو دوسری جانب ڈیتھ اوورز سپیشلسٹ زمان خان اور فاسٹ بولر محمد علی بھی کم بدقسمت نہیں ہیں۔ محمد علی اس سال پی ایس ایل میں سب سے زیادہ 19 وکٹیں لینے والے فاسٹ بولر ہیں۔
اس سلیکشن میں حسن علی خود کو جتنا بھی خوش قسمت سمجھیں وہ کم ہے۔
حسن علی کے سلیکشن پر سلیکٹر وہاب ریاض کا کہنا ہے کہ انہیں حارث رؤف کے بیک اپ کے طور پر ایک سینیئر بولر ہونے کے ناطے سکواڈ میں شامل کیا گیا ہے اور یہ بات انہیں بھی بتادی گئی ہے۔
وہاب ریاض کا یہ بھی کہنا ہے کہ حسن علی کا آئی سی سی ایونٹس میں ریکارڈ اچھا رہا ہے۔
وہاب ریاض کو غالباً 2017 کی چیمپئنز ٹرافی یاد رہ گئی ہے کیونکہ اس کے بعد مجھے تو یاد نہیں پڑتا کہ کسی آئی سی سی ایونٹ میں حسن علی نے کوئی قابل ذکر پرفارمنس دی ہو۔
2019 کے عالمی کپ میں ان کی بولنگ کچھ اس طرح رہی تھی۔ بمقابلہ ویسٹ انڈیز چار اوورز میں 39 رنز کے عوض کوئی وکٹ نہیں۔ بمقابلہ انگلینڈ 10 اوورز میں 66 رنز کے عوض کوئی وکٹ نہیں۔ بمقابلہ آسٹریلیا 10 اوورز میں 67 رنز دے کر ایک وکٹ۔ بمقابلہ انڈیا نو اوورز میں 84 رنز کے عوض ایک وکٹ۔
اگر ہم 2021 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں ان کی پرفارمنس پر نظر ڈالیں تو انڈیا اور آسٹریلیا کے خلاف چار چار اوورز میں 44۔ 44 رنز سکور کارڈز میں ان کے نام کے سامنے درج ہیں۔
حسن علی گذشتہ سال انڈیا میں ورلڈ کپ بھی کھیل گئے تھے جس میں انہوں نے سری لنکا کے خلاف چار وکٹوں کے حصول کے لیے 71 رنز دے ڈالے تھے جبکہ نیوزی لینڈ کے خلاف انہوں نے ایک وکٹ کے لیے 82 رنز دے دیے تھے۔
یہاں حارث رؤف کا ذکر بھی کرنا ضروری ہے جن کے بارے میں سلیکشن کمیٹی یہ کہتی ہے کہ ان کی فٹنس میں نمایاں بہتری آ رہی ہے۔ وہ یہ نہیں کہہ رہی کہ حارث رؤف سو فیصد فٹ ہوچکے ہیں بلکہ وہ یہ کہہ رہی ہے کہ اگر حارث رؤف فٹ ہوگئے تو وہ ہماری پہلی ترجیح ہوں گے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ پی ایس ایل میں انجرڈ ہونے کے بعد سے حارث رؤف اب تک کسی میچ میں نہیں کھیلے تو کیا یہ رسک نہیں ہے کہ انہیں کسی ڈومیسٹک میچ میں کھلائے بغیر انٹرنیشنل کرکٹ میں واپس لایا جا رہا ہے؟ کیا یہ بہتر نہ تھا کہ انہیں اس وقت جاری پریذیڈنٹ کپ ون ڈے ٹورنامنٹ میں کسی ٹیم میں شامل کرکے ان کی میچ فٹنس دیکھ لی جاتی اور پھر انہیں سلیکٹ کیا جاتا؟
کیا ہم اس بات کے لیے تیار رہیں کہ وہ برطانوی دورے میں مکمل فٹ نہ ہوسکے تو پھر ان کے متبادل کے طور پر حسن علی کو ہی ٹیم میں شامل کرنا پڑ جائے یا پھر نامکمل فٹ حارث رؤف کو ورلڈ کپ سکواڈ کے ساتھ رکھ کر ٹور کرایا جائے اور آخری وقت تک ان کے مکمل فٹ ہونے کا انتظار کیا جائے؟
جہاں تک بیٹنگ کے شعبے کا تعلق ہے تو اس میں بھی تشویش کے کئی پہلو ہیں۔
بابراعظم اور محمد رضوان کی اوپننگ جوڑی ختم کرکے اوپنر کے طور پر صائم ایوب کو لایا گیا ہے لیکن وہ ابھی تک انٹرنیشنل کرکٹ میں اپنے ٹیلنٹ کو صحیح طور پر پیش نہیں کرسکے ہیں۔
15 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل اننگز کھیل کر وہ ابھی تک ایک بھی نصف سنچری سکور کرنے میں کامیاب نہیں ہوپائے ہیں اور ڈر یہ ہے کہ وہ اپنے سلیکشن کا جواز فراہم کرنے میں ناکامی کے سبب ٹیم سے باہر نہ ہوجائیں۔
اسی طرح عثمان خان پر بھی یقیناً دباؤ ہوگا کہ وہ اپنے ٹیلنٹ کو کسی قابل ذکر کارکردگی سے ثابت کریں۔ انہیں بھی بڑی اننگز جلد سے جلد کھیلنا ہوگی۔ جس طرح سلیکشن کمیٹی ان پر اعتماد ظاہر کررہی ہے اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ورلڈ کپ سکواڈ کا حصہ ہوں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
افتخار احمد کے لیے بھی یہ دورہ بہت اہم ہے۔ نیوزی لینڈ کے گزشتہ دورے کے پانچوں ٹی ٹوئنٹی میچوں میں انہیں بڑا سکور کرنے کا پورا پورا موقع ملا تھا لیکن انہوں نے ان میچوں میں 13 ویں سے 18 ویں اوور میں اپنی وکٹ گنوائی اور ان کا سب سے بڑا سکور صرف 24 رنز تھا۔
سلمان علی آغا کا سلیکشن اس لیے حیران کن ہے کہ وہ ٹیسٹ اور ون ڈے تو کھیل چکے ہیں لیکن ابھی تک وہ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل نہیں کھیلے ہیں۔ اگر انہیں صرف اس وجہ سے سکواڈ کا حصہ بنایا گیا ہے کہ وہ مڈل آرڈر بیٹنگ کے ساتھ ساتھ آف سپن بھی کرلیتے ہیں تو یہ خوبی افتخار احمد میں بھی موجود ہے۔
سلمان علی آغا اس سال پی ایس ایل میں اسلام آباد یونائٹڈ کی طرف سے کھیلے تھے اور بارہ اننگز میں ان کے نام کے آگے دو نصف سنچریاں اور دو ہی وکٹیں درج ہیں۔
عرفان خان کے سلیکشن پر بھی بہت بات ہوچکی ہے کیونکہ پی ایس ایل میں انہوں نے کوئی ایسی بڑی پرفارمنس نہیں دی تھی جس کی بنیاد پر وہ فوراً انٹرنیشنل کرکٹ میں لائے گئے ہیں۔
صائم ایوب کے آنے کے بعد رضوان نمبر تین پر کھیلے ہیں اور فخر زمان کا بیٹنگ آرڈر مزید نیچے ہوگیا ہے اور اب وہ نمبر تین کے بجائے نمبر چار پر کھلائے جا رہے ہیں، اس کے باوجود انہوں نے اس پوزیشن پر انہوں نے اپنی روایتی جارحانہ بیٹنگ کی جھلک ضرور دکھائی ہے لیکن سب کو پتہ ہے کہ بیٹنگ آرڈر کی تبدیلی سے سب سے زیادہ فرق فخر زمان کو پڑا ہے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کا ایک بڑا مسئلہ نمبر تین سے نمبر چھ تک کی بیٹنگ کا ہے۔ حالیہ دو برسوں کے اعدادوشمار کو دیکھیں تو ان بیٹنگ پوزیشنوں پر پاکستان کا ریکارڈ خاصا غیر متاثر کن نظر آتا ہے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ ہیڈ کوچ کی تبدیلی ٹیم کے مائنڈ سیٹ کو کتنا تبدیل کر پائے گی۔ دیگر ٹیمیں خوف سے آزاد ہوکر کھیل رہی ہیں اور ہمارے بیٹسمین ٹیم سے باہر ہونے کے خوف میں مبتلا ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔