شمالی افغانستان میں سیلاب سے 66 افراد جان سے گئے: حکام

افغانستان میں حکام کا کہنا ہے کہ ملک کے شمالی حصوں میں آنے والے حالیہ سیلاب سے 66 افراد جان سے گئے جبکہ کھیت اور دیہات زیر آب آ گئے ہیں۔

13 اپریل، 2024 کی اس تصویر میں افغانستان کے علاقے سپن بولدک میں شہری سیلابی ریلے کا معائنہ کرتے ہوئے(اے ایف پی)

افغانستان میں حکام کا کہنا ہے کہ ملک کے شمالی حصوں میں آنے والے حالیہ سیلاب سے 66 افراد جان سے گئے جبکہ کھیت اور دیہات زیر آب آ گئے ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق رواں ماہ افغانستان میں آنے والے سیلاب میں سینکڑوں افراد جان گنوا چکے ہیں اور زرعی زمینیں کو نقصان پہنچا ہے، یہاں کی 80 فیصد آبادی کا انحصار زراعت پر ہے۔

صوبہ فریاب کے گورنر کے ترجمان عصمت اللہ مرادی نے ایک بیان میں کہا کہ ’حالیہ شدید سیلاب نے ہفتے کی رات صوبہ فریاب کے متعدد اضلاع کو متاثر کیا جس کے نتیجے میں ’انسانی اور مالی نقصانات‘ ہوئے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’سیلاب کی وجہ سے 66 افراد جان سے گئے‘ اور کم از کم پانچ افراد زخمی ہوئے ہیں اور دیگر اب بھی لاپتہ ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’سیلاب نے 1500 سے زیادہ گھروں کو نقصان پہنچایا، 1000 ایکڑ سے زیادہ زرعی زمین زیر آب آ گئی اور سینکڑوں مویشی مارے گئے۔‘

اس سیلاب سے ایک روز قبل صوبائی پولیس کا کہنا تھا کہ مغربی صوبے غور میں اچانک آنے والے سیلاب میں 50 سے زائد افراد جان سے گئے۔

اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) اور طالبان حکام کے مطابق ایک ہفتہ قبل شمالی صوبہ بغلان میں سیلاب کے باعث 300 سے زائد افراد جان سے گئے تھے۔

طالبان حکام نے خبردار کیا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں اموات کی تعداد بڑھ سکتی ہے کیونکہ تباہ شدہ انفراسٹرکچر کی وجہ سے امداد کی ترسیل اور لاپتہ افراد کی تلاش میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔

صوبائی گورنر کے ترجمان عبدالواحد حماس کے مطابق غور میں سیلاب سے مرنے والوں کی تعداد 50 سے بڑھ کر 55 ہو گئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’غور میں سیلاب کی وجہ سے تین ہزار سے زیادہ گھر مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیں۔‘

ڈبلیو ایف پی کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر شیئر کی جانے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ گدلے پانی کی لہریں گھروں کی دیواروں سے ٹکرا رہی اور غور کی گلیوں سے گزر رہی ہیں۔

بغلان، غور، فریاب اور دیگر متاثرہ صوبوں کے باشندوں کے پاس پناہ لینے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے اور وہ اپنے گھروں اور ذریعہ معاش سے محروم ہو گئے۔

غور کے رہائشی جوان گل نے ہفتے کو اے ایف پی کو بتایا کہ ’جب بارش شروع ہوئی تو ہم اپنے گھر میں تھے اور اچانک سیلاب آیا، ہم چیزوں کو باہر نکالنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن وہ ہمارا گھر، ہماری زندگی اور سب کچھ بہا لے گیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صوبائی حکام کا کہنا ہے کہ سیلاب کی وجہ سے غور کے دور افتادہ علاقے میں واقع 12 ویں صدی کے جام مینار کے لیے بھی تشویش پیدا ہو گئی ہے۔

 میڈیا میں گردش کرنے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی بنیاد کے ارد گرد سیلابی پانی گھوم رہا ہے۔

غور میں انفارمیشن اینڈ کلچر کے ڈائریکٹر عبدالحئی زعیم نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’جام کی صورت حال انتہائی تشویش ناک تھی۔‘

ڈبلیو ایف پی نے خبردار کیا ہے کہ حالیہ سیلاب نے افغانستان میں پہلے سے ہی سنگین انسانی صورت حال کو مزید بڑھا دیا ہے۔

چار کروڑ سے زائد آبادی والے ملک افغانستان میں موسم بہار میں آنے والے سیلاب کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے لیکن اس سال اوسط سے زیادہ بارشوں سے تباہ کن سیلاب آئے ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ حالیہ سیلاب سے قبل اپریل کے وسط سے مئی کے اوائل تک افغانستان کے 10 صوبوں میں سیلاب کے نتیجے میں تقریباً 100 افراد جان سے گئے۔

ماہرین کے مطابق یہ بارشیں افغانستان میں طویل خشک سالی کے بعد ہوئی ہیں۔

افغانستان ان ممالک میں سے ایک ہے جن کی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے تیاری سب سے کم ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات