امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا غزہ پر طویل مدتی قبضہ امریکہ کو قبول نہیں ہے۔
خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن سے بدھ کو قطر میں جب غزہ فائر بندی فریم ورک کے تحت اسرائیلی فوجیوں کے انخلا کی شرائط اور فلاڈیلفیا کوریڈور میں فوج رکھنے کے متعلق اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کے بیان کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہ معاہدہ بالخصوص غزہ سے اسرائیلی افواج کے انخلا کے شیڈول اور مقامات کے بارے میں بہت واضح ہے اور اسرائیل نے اس پر اتفاق کیا ہے۔‘
بلنکن نے معاہدے کے لیے حالیہ کوششوں کو ’شاید بہترین اور ممکنہ طور پر آخری موقع‘ قرار دیا اور کہا ہے کہ نتن یاہو کے ساتھ ان کی ملاقات تعمیری تھی۔ انہوں نے کہا کہ حماس کی ذمہ داری ہے کہ وہ فاصلے کم کرنے کی تجویز قبول کرے۔
بلنکن کے بیان کے بارے میں پوچھے جانے پر حماس کے سینیئر عہدیدار سمیع ابو زہری نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ’بلنکن جھوٹ کے دائرے میں پھنسے رہنے پر اصرار کر رہے ہیں اور یہ معاہدے تک پہنچنے کی کوششوں کی ناکامی کی ایک وجہ ہے۔‘
غزہ فائر بندی پر نتن یاہو کے بیانات ’تعمیری نہیں‘
ایک امریکی عہدیدار نے غزہ مصر سرحد پر کنٹرول برقرار رکھنے کے بارے میں اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو سے منسوب ’انتہا پسندانہ‘ بیانات کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حماس کے ساتھ فائربندی تک پہنچنے میں مددگار نہیں ہیں۔
فرانسیسی خبررساں ایجنسی ( اے ایف پی) کے مطابق مشرق وسطیٰ میں امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کے ساتھ سفر کرنے والے ایک سینیئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ’اس طرح کے بیانات فائر بندی کے معاہدے کو منطقی انجام تک پہنچانے میں مددگار نہیں ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ اس طرح کے بیانات فریقین کے درمیان فاصلے کم کرنے کے لیے ورکنگ لیول اور ٹیکنیکل مذاکرات کو عملی جامہ پہنانے کی صلاحیت کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔
عہدیدار نے کہا کہ اینٹنی بلنکن پیر کو تل ابیب میں دیے گئے اپنے اس عوامی بیان پر قائم ہیں کہ نتن یاہو نے صدر جو بائیڈن کی جانب سے 31 مئی کو دی گئی فائربندی کے متعلق فاصلے ختم کرنے کے لیے امریکی تجویز پر اتفاق کیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نتن یاہو نے حملوں کے متاثرین کے اہل خانہ کو دیے گئے مبینہ بیان میں کہا کہ اسرائیل غزہ اور مصر کے درمیان فلیڈیلفیا کوریڈور کا کنٹرول برقرار رکھنے پر زور دے گا جسے اسرائیلی افواج نے 10 ماہ سے زائد عرصے سے جاری جارحیت میں حماس سے چھین لیا تھا۔
امریکی عہدیدار نے کہا کہ ’ہم نے وزیر اعظم کے تبصرے دیکھے، خاص طور پر ان میں سے کچھ چیزوں پر ہم عوامی سطح پر بات چیت نہیں کریں گے۔‘
عہدیدار نے کہا کہ اس طرح کے ’تکنیکی‘ مسائل کو مزید بات چیت میں حل کرنے کی ضرورت ہوگی۔
اس عہدیدار نے کہا کہ ’وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن اور امریکہ کو صرف اس بات پر قائل ہیں کہ فائربندی معاہدے کو منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’تکنیکی تفصیلات پر اضافی بات چیت ہوگی، جن میں سے بہت سے یقینا پریس میں زیر بحث ہیں، جو یقینی طور پر اس عمل کے لیے مددگار نہیں ہے۔‘
عہدیدار نے کہا امریکہ کو توقع ہے کہ خاص طور پر حماس کے ردعمل کے بارے میں غیر یقینی صورت حال کے باوجود اسرائیل اور حماس کے درمیان فائر بندی تک پہنچنے کے لیے اس ہفتے سفارتکاری آگے بڑھے گی۔
انہوں نے اسرائیل اور حماس کے درمیان رواں ہفتے ہونے والی کسی باضابطہ ملاقات کی تصدیق کیے بغیر کہا کہ ’ہمیں پوری امید ہے کہ یہ عمل رواں ہفتے جاری رہے گا۔‘
ان مذاکرات میں ایک چھوٹے سے گنجان آباد غزہ کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے، جہاں فلسطینی صحت کے حکام کے مطابق اکتوبر سے اب تک اسرائیل کی جارحیت میں 40 ہزار سے زائد افراد جان سے گئے، ان میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے
غزہ سے چھ قیدیوں کی لاشیں برآمد
اس تنازع کا آغاز سات اکتوبر کو اس وقت ہوا تھا جب حماس نے اسرائیلی آبادیوں اور فوجی اڈوں پر دھاوا بول دیا تھا جس کے نتیجے میں تقریبا 1200 افراد مارے گئے اور 250 کے قریب لوگوں کو قیدی بنا کر غزہ لے جایا گیا۔
منگل کو اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں بتایا کہ اس نے جنوبی غزہ سے چھ قیدیوں کی لاشیں برآمد کی ہیں۔
اسرائیلی حکام کے مطابق اس وقت فلسطینی علاقے میں 109 قیدی موجود ہیں جن میں سے ایک تہائی کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ مارے گئے ہیں۔