25 سال قبل انڈین طیارہ ہائی جیک ہونے پر نیٹ فلیکس کی نئی سیریز

نیٹ فلیکس کی نئی سیریز میں دسمبر 1999 میں انڈین طیارہ ہائی جیک ہونے سے مسافروں کے بازیابی تک کی کہانی کو ایک نئے انداز میں دکھایا جائے گا۔

27 دسمبر، 1999 کی اس تصویر میں افغانستان کے شہر قندھار کے ہوائی اڈے پر ہائی جیک ہونے والا انڈین طیارہ دیکھا جا سکتا ہے(اے ایف پی)

دسمبر 1999 میں انڈین ایئرلائنز کی ایک پرواز کے ہائی جیک ہونے کے واقعے پر نیٹ فلکس کی ایک نئی سیریز سامنے آئی ہے۔ اس جہاز کو چھڑوانے میں سات دن لگے اور یہ انڈین ہوا بازی کی تاریخ میں کسی طیارے کی سب سے طویل عرصے کے لیے ہائی جیکنگ تھی۔

ہائی جیک کی گئی پرواز کے پائلٹ کیپٹن دیوی شرن کی  کتاب ’فلائٹ ان ٹو فیئر سے ماخوذ  آئی سی 814: دی قندھار ہائی جیک‘ اس بحران کو مختلف نقطہ نظر سے پیش کرتی ہے جس میں دہلی کے وار روم میں موجود سیاست دانوں اور بیوروکریٹس سے لے کر اس میں سوار خوف زدہ یرغمالیوں تک لوگ شامل ہیں۔

پانچ نقاب پوش افراد نے 24 دسمبر 1999 کو کھٹمنڈو کے تری بھوون بین الاقوامی ہوائی اڈے سے نئی دہلی جانے والے اس طیارے کو اڑان بھرنے کے 40 منٹ بعد ہائی جیک کر لیا تھا۔

شرن کو مجبور کیا گیا کہ وہ طیارے کو پاکستانی فضائی حدود میں لے جائیں، جہاں پاکستان میں انڈین ہائی کمیشن کی بار بار درخواستوں کے باوجود انہیں لینڈنگ کی کلیئرنس نہیں ملی۔

 اس کے بعد طیارہ شام سات بجے سے کچھ دیر پہلے امرتسر میں اترا اور اس میں بمشکل 10 منٹ کا ایندھن بچا تھا۔

امرتسر میں انڈین حکام کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ طیارے میں ایندھن بھرنے میں زیادہ سے زیادہ تاخیر کریں۔ لیکن اسی وقت ہائی جیکرز چاہتے تھے کہ طیارہ دوبارہ اڑان بھرے اور  پاکستان میں اترنے کی اجازت ملے۔

 انڈیا ٹو ڈے کے مطابق شرن نے انڈین ایئر ٹریفک کنٹرول سے بات کرتے ہوئے کہا کہ برائے مہربانی اوپلا (لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ) پر لینڈنگ کی اجازت حاصل کریں۔ بصورت دیگر وہ کہیں بھی گرانے کے لیے تیار ہیں ... انہوں نے پہلے ہی 10 لوگوں کو جان سے مارنے کے لیے چن لیا ہے۔

جیسے ہی انہوں نے اے ٹی سی سے دوبارہ رابطہ کیا، اور انہیں بتایا کہ اغوا کاروں نے یرغمالیوں کو مارنا شروع کردیا ہے، افرا تفری پھیل گئی۔ اس کے فورا بعد شام 7:50 بجے انہوں نے اڑان بھری۔

انہوں نے اے ٹی سی کو بتایا کہ ’ہم سب مرنے جا رے ہیں۔‘

ہائی جیکروں نے شرن کو طیارہ لاہور لے جانے پر مجبور کیا، جہاں پائلٹ نے پاکستان کے اے ٹی سی سے اجازت نہ ملنے کے باوجود ہنگامی لینڈنگ کی، جس نے ہوائی اڈے پر تمام لائٹس اور نیوی گیشنل آلات بند کر دیے تھے۔

ایندھن بھرنے کے بعد طیارے نے ایک بار پھر لاہور سے اڑان بھری اور دبئی میں لینڈنگ کی کوشش کی۔ وہاں بھی اجازت نہ ملنے کے بعد یہ پرواز متحدہ عرب امارات کے المنہد ایئر بیس پر اتری۔

یہاں ہائی جیکروں نے 176 مسافروں میں سے 27 کو رہا کر دیا، جن میں 25 سالہ روپن کٹیال کی لاش بھی تھی، جنہیں ہائی جیکروں نے چاقو کے وار سے مار ڈالا تھا۔

اس کے بعد طیارہ بالآخر ہائی جیکروں کی اصل منزل طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان کے قندھار ہوائی اڈے پر اترا۔

باقی یرغمالیوں نے اگلے چھ دنوں تک وہیں انتظار کیا، جبکہ اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت میں حکومت نے دہشت گردوں کے ساتھ بات چیت کی، جو چاہتے تھے کہ انڈیا یرغمالیوں کے بدلے 36 قیدی رہا کرے۔

ان پانچ پاکستانی ہائی جیکروں کی شناخت ابراہیم اطہر، شاہد اختر سید، سنی احمد قاضی، مستری ظہور ابراہیم اور شاکر کے طور پر کی گئی اور ان کا تعلق پاکستان سے تعلق رکھنے والے عسکری گروپ حرکت المجاہدین (ایچ یو ایم) سے تھا۔

ان کے مطالبات سادہ تھے: وہ ایچ یو ایم کے ارکان احمد عمر سعید شیخ اور مسعود اظہر اور پاکستان کے حمایت یافتہ کشمیری عسکریت پسند مشتاق احمد زرگر کی رہائی چاہتے تھے۔

سخت مذاکرات اور بے یقینی کی صورت حال  کے بعد 30 دسمبر کو انڈین حکومت ہائی جیکروں کو تین دہشت گردوں کے بدلے تمام یرغمالیوں کو رہا کرنے پر قائل کرنے میں کامیاب رہی۔

فلائٹ کے یرغمالیوں میں سے ایک 41 سالہ مرچنٹ نیوی کیپٹن کولٹو روی کمار کے بقول: ’میں صبح کے تقریبا تین بجے سویا ہوں گا اور آٹھ بجے بیدار ہوا۔ ناشتے میں افغان روٹی دی جاتی تھی۔

’میرا کھانے کا دل نہیں کرتا تھا۔ مجھے فکر تھی کہ یہ صدی چند گھنٹوں بعد ختم ہو جائے گی اور میں جشن سے محروم رہ جاؤں گا۔ میں بہت سی چیزوں کے بارے میں سوچ رہا تھا۔‘

رہا کیے گئے تینوں دہشت گردوں کو 2001 میں نئی دہلی میں انڈین پارلیمنٹ پر حملہ، 2008 میں ممبئی میں دہشت گرد حملے، 2002 میں وال سٹریٹ جرنل کے  رپورٹر ڈینیئل پرل کے اغوا اور قتل سمیت دہشت گرد حملوں میں ملوث ہونے کا الزامات کا سامنا ہے۔

یرغمالیوں کی رہائی کے بعد انڈین حکام کا خیال تھا کہ طالبان حکام اغوا کاروں کو گرفتار کریں گے اور رہائی پانے والے دہشت گردوں کی تحویل میں لے لیں گے۔ اس کے بجائے، طالبان انہیں گاڑی میں بٹھا کر سرحد پار پاکستان کے شہر کوئٹہ لے گئے۔

بی جے پی حکومت کو اس بحران کو جلد حل کرنے میں ناکامی اور بالخصوص طیارے کو انڈین علاقہ چھوڑنے کی اجازت دینے پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

قندھار جانے والی چار رکنی مذاکراتی ٹیم کی قیادت کرنے والے 64 سالہ انٹیلی جنس بیورو کے سابق سربراہ اے کے دوول نے اسے ’سفارتی ناکامی‘ اور  انڈیا کے لیے ’بڑی شرمندگی‘ قرار دیا۔

انہوں نے خبر ایجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا کو بتایا کہ ’ہماری نااہلی کی وجہ سے سفارتی ناکامی ہوئی۔ جب ہم جانتے تھے کہ امریکہ مکمل طور پر دہشت گردوں کے خلاف ہے، وہ طالبان کے خلاف ہیں۔

 ’تو ہم اس چیز سے فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ ہمارے سفیر (ابوظبی کے) ہوائی اڈے کے اندر بھی داخل نہیں ہو سکے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ سیریز انوبھو سنہا اور تریشانت شریواستوا نے بنائی ہے اور اس کی کاسٹ میں کئی اداکار مل کر کام کرتے دکھائی دیں گے۔

انوبھو سنہا نے ورائٹی میگزین کو بتایا کہ ’تریشانت، مصنف، اور میں نے اس پر بہت سوچا کہ زیادہ تر معلومات آن لائن دستیاب ہیں۔ دستاویزی فلمیں اور وی لاگ بنائے گئے ہیں، مضامین لکھے جا چکے ہیں، لہذا ہم اور زیادہ معلومات کے لیے مزید گہرائی میں جانا چاہتے تھے۔‘

انہوں نے کہا، ’ہم نے دہلی سے ریسکیو مشن کرنے والے عہدیداروں سے ملاقات کی، اور مسافروں اور عملے نے ہمیں طیارے کے اندر کی کہانی بتائی۔

’لندن سے تعلق رکھنے والے معروف صحافی، مصنف اور فلم ساز ایڈرین لیوی شامل ہوئے اور ہمارے سامنے ایک نیا بین الاقوامی کینوس نمودار ہوا۔

’ان سات دنوں میں جو کچھ ہوا وہ ایک زبردست کہانی ثابت ہوئی جس میں خوفناک اور سنسنی خیز حکمت عملی اور سفارتی چالیں بیان کیا گئیں۔

’ناظرین کو اس کہانی کے بارے میں ضرور جاننا چاہیے جس کو اس سے پہلے کبھی ایسے اداکاروں نے پوری طرح بیان نہیں کیا، جن کے بارے نہیں معلوم کہ میں دوبارہ ان کے ساتھ کام کر سکوں گا یا نہیں۔‘

آئی سی 814: قندھار ہائی جیک 29 اگست سے نیٹ فلکس پر دیکھنے کے لیے دستیاب ہو گی۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹی وی