امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے اسرائیل اور حماس دونوں پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ میں فائر بندی معاہدے کو حتمی شکل دیں۔ امریکی حکام کی رائے میں معاہدے کا 90 فیصد حصہ تیار ہے اور اب صرف چند معاملات یا نکات باقی ہیں جن پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اینٹنی بلنکن نے کہا کہ امریکہ آنے والے دنوں میں مصر اور قطر کے ثالثوں کے ذریعے مزید تجاویز پیش کرے گا تاکہ ایک معاہدے پر دستخط کیے جا سکیں۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو نے جمعرات کو فاکس نیوز کے ساتھ انٹرویو میں امریکی عہدیدار کے اس اندازے کو کہ معاہدہ 90 فیصد تیار ہے، یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ ’یہ قریب بھی نہیں ہے۔‘
تاہم اینٹنی بلنکن نے ہیٹی کے دورے کے دوران ایک نیوز کانفرنس میں اپنے ان اندازوں کو دہراتے ہوئے کہا کہ ’میرے خیال میں جو کچھ میں نے دیکھا ہے اس کی بنیاد پر (معاہدہ) 90 فیصد طے ہے۔‘
امریکی وزیر خارجہ نے کہا: ’یہ دونوں فریقوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ باقی ماندہ معاملات پر اتفاق کریں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا: ’میں سمجھتا ہوں کہ ہم فائر بندی کے معاہدے کے قریب پہنچ چکے ہیں لیکن ہر روز ایسا ہوتا ہے جہاں اس کو حتمی شکل نہیں دی جاتی اور فریقین حتمی طور پر ہاں نہیں کہتے، ایک ایسا دن ہوتا ہے جس میں کچھ اور ہوتا ہے اور کوئی ایسا واقعہ پیش آتا ہے جو چیزوں کو مزید پیچھے دھکیل دیتا ہے اور اس نازک عمل کو پٹڑی سے اتارنے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔‘
امریکہ نے حالیہ ہفتوں میں دونوں فریقوں کے درمیان خلا کو ختم کرنے کی ایک تجویز پیش کی ہے، جس میں نتن یاہو کے غزہ اور مصر کی سرحد پر کچھ اسرائیلی فوجیوں کو چھوڑنے پر اصرار پر اختلافات بھی شامل ہیں۔
اینٹنی بلنکن نے جنوری 2025 میں جو بائیڈن کے عہدہ چھوڑنے سے قبل کسی معاہدے کے امکان کو مسترد نہیں کیا۔
انہوں نے کہا: ’میرے خیال میں اگر ہم غزہ میں فائر بندی کروا دیتے ہیں، تو اس انتظامیہ کے دوران ہمیں معمول پر آنے کی طرف قدم بڑھانے کا موقع مل سکتا ہے۔‘
دوسری جانب فلسطینی گروپ حماس نے جمعرات کو کہا ہے کہ غزہ میں فائر بندی کی نئی تجاویز کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور اس کے بجائے اسرائیل پر دباؤ ڈالا جانا چاہیے کہ وہ جولائی میں پیش کیے گئے فائربندی کے امریکی منصوبے پر رضامند ہو۔
حماس نے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو نے اس بات پر زور دے کر ایک معاہدے کو ناکام بنانے کی کوشش کی ہے کہ اسرائیل جنوبی غزہ میں فلاڈلفی کوریڈور سے دستبردار نہیں ہو گا۔
قبل ازیں امریکی صدر جو بائیڈن بھی کہہ چکے ہیں کہ اسرائیلی وزیراعظم غزہ میں حماس کی جانب سے قیدی بنائے گئے افراد کی رہائی کی غرض سے کسی معاہدے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہے۔
خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق غزہ میں فائربندی کے لیے امریکہ کی پہلی تجویز حماس نے قبول کی ہے لیکن اب توقع کی جا رہی تھی کہ امریکہ، حماس اور اسرائیل کے درمیان جاری تعطل کو ختم کرنے کے لیے فائر بندی کی ایک نئی تجویز پیش کرے گا۔
امریکی حکام، دو مصری سکیورٹی ذرائع اور اس معاملے سے باخبر ایک عہدیدار نے روئٹرز کو بتایا تھا کہ وائٹ ہاؤس غزہ میں فائر بندی اور حماس کے پاس موجود قیدیوں کی رہائی کے لیے ایک نئی تجویز پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ نئی تجویز کا مقصد اسرائیل اور حماس کے درمیان تنازع میں سیز فائر کے لیے کئی ماہ سے جاری مذاکرات میں تعطل کی وجہ بننے والے اہم نکات پر کام کرنا ہے۔
تین مرحلوں پر مشتمل اس معاہدے کے کچھ حصے جو دونوں فریق پہلے ہی تسلیم کر چکے ہیں، کے تحت اسرائیل کو معاہدے کے پہلے مرحلے میں غزہ کے تمام گنجان آباد علاقوں سے نکلنا ہو گا۔
تاہم اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے مقبوضہ بیت المقدس میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران اس بات پر زور دیا تھا کہ اسرائیل فلاڈیلفی کوریڈور کا کنٹرول برقرار رکھے گا۔
اسرائیل نے مئی میں فلاڈلفی کوریڈور کا کنٹرول یہ کہتے ہوئے اپنے قبضے میں لے لیا تھا کہ حماس اسے ہتھیاروں اور ممنوعہ مواد کو غزہ کی سرنگوں میں سمگل کرنے کے لیے استعمال کرتی تھی۔
11 ماہ سے جاری یہ تنازع سات اکتوبر کو اس وقت شروع ہوا تھا جب حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا، جس میں 1200 افراد مارے گئے اور 250 کے قریب کو قیدی بنا لیا گیا۔
غزہ کے محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت میں تقریباً 41 ہزار فلسطینی جان سے جا چکے ہیں اور بڑے پیمانے پر ساحلی علاقے کو مسمار کر دیا گیا ہے، جس سے اس کے 23 لاکھ افراد میں سے زیادہ تر بے گھر ہو گئے ہیں اور انسانی بحران پیدا ہوا ہے۔
امریکہ، قطر اور مصر کی ثالثی میں کئی ماہ سے مذاکرات جاری ہیں لیکن مئی میں بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے پیش کی گئی غزہ میں فائربندی کی تجویز پر ابھی تک کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکا ہے۔
سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز اس مسودے پر کام کرنے والے سینیئر امریکی عہدیداروں کے ایک چھوٹے گروپ کے سربراہ ہیں، جس میں مشرق وسطیٰ کے لیے وائٹ ہاؤس کے کوآرڈینیٹر بریٹ میک گرک اور وزیرخارجہ اینٹنی بلنکن شامل ہیں۔