چاہے انہیں اچھا لگے یا نہ لگے، جرمن اور برطانوی شہری ایک جیسے مسائل کا شکار ہو رہے ہیں۔ دونوں پر ناکامیوں کے اثرات ہیں۔
انہیں پنلٹی ککس میں صدمات اور تاخیر کی شکار ریل گاڑیوں کے مسئلے کا سامنا ہے۔ دونوں بھاری بھرکم کھانا کھاتے ہیں اور ان کی سیاست کا انداز ضد پر مبنی ہے۔ یہ قیادت مقبول طرز سیاست کے خطرے کو سمجھنے میں مشکل کا شکار ہے۔
کچھ سال قبل صورت حال خاصی مختلف تھی۔ برطانیہ بورس جانسن کے نااہل، احمقانہ اور مغرور رویے سے نبرد آزما تھا۔
یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ بریگزٹ کے بعد، جب میں نے (روحانی اور عملی طور پر کچھ عرصے کے لیے) برطانیہ چھوڑا تو برلن میں میرے نئے دوستوں نے اسے ’پارٹی جزیرہ‘ قرار دیا۔
اس کے برعکس اینگلا میرکل کی سربراہی میں جرمن حکومت اندرون ملک اور بین الاقوامی سطح پر درپیش متعدد مسائل کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کر رہی تھی، اگرچہ اسے ہمیشہ کامیابی نہیں ملی۔
اب برطانیہ ایک بار پھر سنجیدہ ہے۔ کیئر سٹارمر کے وزیر اعظم ہونے کی بدولت برطانیہ کے پاس ایک ایسا رہنما ہے جو احترام کا مستحق ہے۔
دوسری جانب جرمنی کے چانسلر اولاف شولز مشکلات کا شکار ہیں۔
شولز نے گذشتہ اتوار کو سیکسنی اور سورنجیا کے مشرقی علاقوں میں ہونے والی انتخابات کو ’تلخ‘ قرار دیا ہے اور ایسا کہنا جائز بھی ہے۔
سورنجیا میں دورِ حاضر کی انتہائی دائیں بازو کی پارٹی، آلٹرنیٹیو فایر ڈوئچ لینڈ (ایے ایف ڈی) نے فتح حاصل کی ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد پہلی بار ایسا ہوا ہے ایک انتہائی دائیں بازو کی پارٹی نے علاقائی انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہو۔
شولز کے لیے تسلی کی واحد بات یہ ہے کہ مرکزی دہارے کی دیگر جماعتوں نے کم از کم اتنی ہی خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
سیاسی جماعت، گرینز کو ماحولیاتی اہداف کے معاملے میں وسیع تر رد عمل کا سامنا ہے۔
فری ڈیموکریٹس، جو اتحاد کی سب سے چھوٹی پارٹی ہے، نے گذشتہ اتوار کو سیکسنی میں ایک فیصد سے بھی کم ووٹ حاصل کیے اور اینیمل پروٹیکشن پارٹی سے پیچھے رہ گئی۔
اس کے رہنما، کرسٹیان لنڈنر پر تنقید ہو رہی ہے، جنہوں نے بطور وزیر خزانہ اپنے وقت میں نہ صرف ترقی کا راستہ روکنے کی کوشش کی بلکہ ہر موقعے پر اپنی اتحادی پارٹیوں کو کمزور کیا۔
جہاں تک بات ہے حزب اختلاف کی جماعت کرسچین ڈیموکریٹس کی، سی ڈی یو کو اس وقت بڑی کامیابی حاصل کرنی چاہیے تھی لیکن اس کے تندوتیز مزاج کے مالک اور میرکل کے بعد سامنے آنے والے رہنما فریڈرک مرز کی شکل میں پارٹی نے ایسے شخص کو تلاش کر لیا ہے جو ووٹرز کو دونوں طرف سے بیگانہ کر رہا ہے۔
اس خلا میں انتہائی دائیں بازو کی پارٹی اے ایف ڈی نے شاندار ترقی کی ہے۔ اس کے پیچھے تازہ ترین باغی مزاج پارٹی، بی ایس ڈبلیو ہے جو اپنے اب ہر جگہ موجود رہنے والی رہنما، سارہ واگن کنخ، کے نام پر بنائی گئی ہے۔
خود کو ’بائیں بازو کا قدامت پسند‘ کہنے والی پارٹی زیادہ بڑا خطرہ پیش کرتی ہے۔ واگن کنخ ٹیلی ویژن ٹاک شو کی مقبول شخصیت ہیں جو دھڑلے سے روائتی سوچ کو چیلنج کرتی ہیں۔
موجودہ دور کی سیاست کا یہ حال ہے کہ ’انتہائی بائیں بازو‘ اور ’انتہائی دائیں بازو‘ کی اصطلاحات ایک دوسری کی جگہ لے سکتی ہیں۔
سارہ واگن کنخ میں جارجیا میلونی کی فن کارانہ صلاحیتیں اور میرین لی پین کی سیاست یکجا ہیں۔
وہ (خطرناک طور پر) کریملن کی حامی، امیگریشن اور سماجی ناانصافیوں کے حساسیت پیدا کرنے کی مہم کی مخالف جبکہ وسائل کی ازسرنو تقسیم کے اور بڑی فلاحی ریاست کے حق میں ہیں (لیکن صرف ’سچے‘ جرمنوں کے لیے۔)
واگن کنخ کا برطانوی سیاست دانوں میں نائیجل فراج کے ساتھ موازنہ سب سے زیادہ مناسب ہے۔ وہ اور واگن کنخ دونوں ہی پراعتماد لیکن نازک مزاج ہیں۔
وہ دونوں نئی انتہاپسند سمت کی نمائندگی کرتے ہیں جبکہ خود کو نیا مرکزی دھارا قرار دیتے ہیں۔
جیسے کہ سٹارمر کی ٹیم اچھی طرح سے جانتی ہے کہ سیاسی منظر نامے میں معمولی سی تبدیلی بھی آئندہ انتخابات میں لیبر پارٹی کو درجنوں حلقوں میں شکست دینے کی خاطر ریفارم یوکے کے لیے کافی ہو گی۔ متعدد ارکان پارلیمنٹ پہلے ہی فکر مند ہیں۔
لیبر رہنما بار بار دلیل دیتے ہیں کہ عوامیت پسند جماعتوں کے خطرے کا مقابلہ کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ٹوری حکومت کے 14 سال کے بحران کو ختم کیا جائے۔
حکومت کے وزرا جہاں کہیں بھی نظر ڈالتے ہیں، انہیں افراتفری اور غفلت کی وراثت نظر آتی ہے۔
گرینفل ٹاور کی تباہی پر رپورٹ شاید سب سے زیادہ ڈرامائی ہے لیکن بہت سی رپورٹوں میں سے صرف ایک ہے۔
نئی حکومت کو عوامی رہائش گاہوں کی حفاظت ڈرامائی طور پر بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
حکومت کو صحت کے شعبے اور بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور یہ سب کچھ کم بجٹ میں کرنا ہو گا۔
سٹارمر نے اپنے کام کا بمشکل آغاز ہی کیا ہے۔ ان کے پاس کافی وقت ہے کہ وہ اس قسم کی برطانیہ کی تصویر پیش کریں جیسا وہ دیکھنا چاہتے ہیں۔
انہیں حقیقت پسندی کے ساتھ ساتھ کچھ جذبہ بھی دکھانا ہو گا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہیں ووٹرز سے تعلق قائم کرنے کا طریقہ تلاش کرنا ہو گا تاکہ زیادہ امید افزا سیاست کو اپنا سکیں۔
یہ کام انہیں اپنے کمفرٹ زون سے باہر نکلنے پر مجبور کرے گا۔
شولز کے پاس وقت نہیں ۔ وہ بے حد ذہین ہیں، لیکن ان کی ذہانت ان نازک حالات میں قیادت کے لیے درکار درست قسم کی نہیں ہے۔
انہوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ معاہدے کر سکتے ہیں اور اتحاد کی حکومت کو کسی نہ کسی طرح قائم رکھ سکتے ہیں (ان کی حکومت ممکنہ طور پر اگلے عام انتخابات تک، جو ایک سال بعد ہونے ہیں، ڈگمگاتی رہے گی۔)
وہ پیچیدہ مسائل کو سمجھتے ہیں لیکن ان کی وضاحت کرنے سے قاصر ہیں۔
یہ خامی کہیں زیادہ واضح طور پر دکھائی نہیں دی جتنی کہ ان کے یوکرین کے معاملے میں نظر آئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فروری 2022 میں روس کے یوکرین پر حملے کے چند دن بعد، شولز نے اپنے مشہور زمانہ’زائیتن ویندے‘ (تاریخی موڑ) کے موقعے پر خطاب میں جرمنوں کو ہمت دلائی کہ وہ جمہوریت کے دفاع کے لیے فوجی طاقت کے استعمال پر اپنے احتراز پر نظرثانی کریں۔
انہوں نے قیادت کا مظاہرہ کیا۔ نہ کوئی مصلحت، نہ کوئی حکمتِ عملی کا جھکاؤ، بلکہ عوامی رائے سے آگے بڑھ کر بڑے مقصد کے لیے قیادت کی۔
رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوا کہ ووٹرز ان کی حمایت کے لیے تیار تھے۔
اس کے بعد شولز نے موقع ضائع کر دیا۔ جرمنی یورپ میں یوکرین کو فوجی (اور دیگر) امداد کا سب سے بڑا فراہم کنندہ بن گیا، لیکن شاذ و نادر ہی اس کا اعتراف کیا گیا۔
شولز کے قریبی حلقوں نے اس ناانصافی کی شکایت کی جس پر واضح جواب یہ تھا کہ آگے آئیں اور صورت حال کو تبدیل کریں۔ جا کر بلند آواز میں بتائیں کہ آپ کیا کر رہے ہیں۔ اوہ! یہ تو بہت مبالغہ آمیز ہو گا۔ یہی رویہ ان کے ملکی ایجنڈے کے معاملے میں بھی اپنایا گیا ہے۔
اپنی سرد مہری کی وجہ سے شولز الگ تھلگ ہو چکے ہیں۔ وہ مشکل حالات میں اپنے ملک کو اپنے ساتھ لے چلنے میں ناکام رہے۔ یہی وہ سبق ہے جو وہ سٹارمر کو سکھا سکتے ہیں اور شاید یہی واحد سبق ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
© The Independent