اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے پاکستان میں ’فتنہ الخوارج‘ کے نام سے جانی جانے والی کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو افغانستان میں ’سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم‘ قرار دیا ہے، جو افغان عبوری حکومت کی مکمل حمایت، تحفظ اور پاکستان کے بڑے دشمن کی سرپرستی کے ساتھ ملک میں تقریباً ’روزانہ دہشت گرد حملے‘ کر رہی ہے۔
بدھ کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے دنیا کو افغانستان میں اور افغانستان سے ہونے والی ’دہشت گردی‘ کے سنگین خطرے سے خبردار کیا اور اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ ٹیم کی 34ویں رپورٹ نے افغانستان سے جنم لینے والی دہشت گردی کے پریشان کن پہلو پر خاطر خواہ روشنی ڈالی ہے۔
ٹی ٹی پی کی علاقائی عدم استحکام پیدا کرنے کی صلاحیت کی نشاندہی کرتے ہوئے منیر اکرم نے کہا کہ ’یہ تیزی سے ایک ایسے دہشت گرد گروہ کے طور پر ابھر رہی ہے، جس کے نیچے دیگر گروہ جمع ہو رہے ہیں اور یہ اب مجید بریگیڈ جیسے علیحدگی پسند گروہوں کے ساتھ بھی رابطہ کر رہی ہے۔‘
انہوں نے متنبہ کیا: ’القاعدہ کے ساتھ اس کی طویل وابستگی کو دیکھتے ہوئے، ٹی ٹی پی کو القاعدہ کے علاقائی اور عالمی دہشت گردی کے مقاصد کی قیادت سنبھالنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔‘
انہوں نے دنیا پر زور دیا کہ وہ مستقبل قریب میں ٹی ٹی پی سے درپیش خطرات کے بارے میں فکر مند ہو۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ پاکستان ٹی ٹی پی کا خطرہ ختم کرنے کی غرض سے علاقائی اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہے اور دہشت گرد تنظیم کے خلاف قومی کارروائی جاری رکھے گا۔
پاکستانی سفیر منیر اکرم نے افغانستان میں امن اور استحکام کی حمایت کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا، جو کہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک اور بین الاقوامی برادری کی سیاسی شمولیت کے فروغ کی مشترکہ خواہشات کی ترجمانی کرتا ہے۔
انہوں نے کہا پاکستان کو پختہ یقین ہے کہ ایسی شمولیت افغانستان میں استحکام اور معمول کے حالات کے امکانات کو بہتر بنانے کے لیے انتہائی اہم ہے۔
تاہم اقوام متحدہ میں پاکستان کے مندوب نے افغان عبوری حکومت کی جانب سے بالخصوص خواتین اور لڑکیوں کے خلاف جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ افغان عبوری حکومت نے نہ صرف خواتین اور لڑکیوں سے متعلق اپنے وعدوں سے انحراف کیا ہے بلکہ ان کی آواز کو دبانے کے مقصد سے نئی ہدایات جاری کرکے صورت حال کو مزید خراب کردیا ہے۔
منیر اکرم نے کہا کہ پاکستان ان اقدامات کی شدید مذمت کرتا ہے۔ ’یہ پسماندہ اقدامات ہمارے روشن خیال مذہب کی حقیقی روح کی خلاف ورزی ہیں، جو مردوں اور عورتوں دونوں کے مساوی حقوق کو برقرار رکھنے والا اولین مذہب ہے۔‘
پاکستانی سفیر نے کہا کہ اگرچہ ہم افغان طالبان کی حکومت کے ساتھ تعمیری روابط کے لیے پرعزم ہیں، لیکن یہ واضح ہے کہ انہیں اپنی ذمہ داریوں سے بچنے کے لیے علاقائی اور بین الاقوامی حالات متاثر کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔
انہوں نے طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے تین سال بعد افغانستان میں جاری انسانی بحران پر بھی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دو کروڑ 37 لاکھ افغانوں کو انسانی امداد کی اشد ضرورت ہے اور پاکستان بین الاقوامی برادری پر زور دیتا ہے کہ وہ بغیر کسی شرائط کے ان کی مدد کرے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان ہیومینیٹیرین نیڈز اینڈ رسپانس پلان، جس کے لیے 3.06 ارب ڈالر کی امداد درکار ہے، کو مطلوبہ فنڈز کا 25 فیصد سے بھی کم موصول ہوا ہے۔
پاکستان کے مستقل مندوب نے زور دے کر کہا: ’اس منصوبے کو مکمل طور پر فنڈ کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہ ضروری ہے کہ افغان عوام کی مشکلات کم کرنے کے لیے فنڈنگ کے تمام ممکنہ ذرائع کو متحرک کیا جائے۔‘
انسانی بحران سے نمٹنے کے علاوہ، منیر اکرم نے افغانستان کی معاشی بحالی کے لیے پاکستان کی حمایت کا اعادہ کیا اور افغان بینکاری نظام کی بحالی، لیکویڈیٹی بحران حل کرنے اور افغانستان کے قومی ذخائر بحال کرنے کے لیے ضروری حالات پیدا کرنے کی فوری ضرورت کو بھی اجاگر کیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ تجارتی اور کاروباری تعلقات کو وسعت دینے کے لیے پرعزم ہے اور علاقائی بنیادی ڈھانچے اور رابطوں کے منصوبوں پر عملدرآمد میں ایک کلیدی شراکت دار ہے، جس سے خطے میں معاشی استحکام اور ترقی میں اضافہ ہوگا۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب نے افغانستان کی عبوری حکومت پر بھی زور دیا کہ وہ اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کی پاسداری کرے اور متنبہ کیا کہ داخلی، علاقائی اور عالمی عدم استحکام کو فروغ دینے والی پالیسیاں بلا روک ٹوک جاری نہیں رہ سکتیں۔
منیر اکرم نے مشورہ دیا کہ بین الاقوامی برادری کو افغانستان میں اپنے مقاصد نظر انداز نہیں کرنے چاہییں۔ طالبان کے ساتھ روابط کی ایک واضح سمت ہونی چاہیے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ’ہمیں افغانستان میں حالات معمول پر لانے کے لیے ضروری اقدامات کا تعین اور عالمی برادری میں اس کے انضمام کے لیے کام کرنا چاہیے۔‘
انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لیے پاکستان کی تجویز ہے کہ بین الاقوامی برادری سیکرٹری جنرل کے خصوصی کوآرڈینیٹر سفیر فریدون سنیرلی اوغلو کی سفارشات پر عمل کرے۔
منیر اکرم نے مزید کہا کہ رپورٹ میں ان اقدامات کا روڈ میپ پیش کیا گیا ہے، جو افغانستان میں انسداد دہشت گردی، انسانی حقوق، سیاسی شمولیت، اقتصادی بحالی، پابندیوں میں نرمی اور سیاسی تسلیم پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔
طالبان کی نئی پابندیاں نظر انداز نہیں کرسکتے: یوناما
دوسری جانب افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ روزا اوتن بائیفا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں بتایا ہے کہ ’امر باالمعروف‘ نامی نئے قانون نے بین الاقوامی برادری کے ساتھ طالبان حکومت کی بات چیت کو کمزور کر دیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یوناما کے سربراہ نے یہ بھی کہا کہ دوحہ کے تیسرے اجلاس میں طالبان حکومت کے نمائندوں کی شرکت سے ان کے ساتھ بامعنی مذاکرات کے ایک نئے باب کا آغاز ہونے کی امید ہے۔
لیکن انہوں نے کہا کہ طالبان کی طرف سے خواتین پر عائد پابندیوں میں اضافہ حقیقی بات چیت کے خلاف منفی سیاسی پیغام دیتا ہے۔
اجلاس کے شرکا نے سلامتی کونسل کے رکن ممالک سے کہا کہ وہ افغان خواتین اور شہریوں کے تحفظ کے لیے اقدامات کریں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا یہ اجلاس زیادہ تر افغان لڑکیوں اور خواتین پر طالبان حکومت کے ’امر باالمروف‘ قانون کے اثرات کا جائزہ لینے پر مرکوز تھا۔
افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ روزا اوتن بائیفا نے شرکا کو بتایا کہ اس قانون کا سیاسی اشارہ طالبان کے ساتھ حقیقی تعلق کے حوالے سے منفی ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ ’ہم اسے نظر انداز نہیں کر سکتے۔‘
انہوں نے کہا کہ اگرچہ طالبان حکومت نے گذشتہ تین سالوں میں معیشت، انفراسٹرکچر اور خارجہ تعلقات کے شعبوں میں مثبت اقدامات کیے ہیں لیکن ان کے بقول افغانوں کو بحران کا سامنا ہے اور اس کی بڑی وجہ غیر ملکی امداد کی کمی ہے۔
انہوں نے ضرورت مند افغانوں کی مدد میں بین الاقوامی دلچسپی میں کمی کی طرف بھی اشارہ کیا اور کہا کہ اس سال اب تک افغانستان کو جس امداد کی ضرورت ہے اس کا صرف تیس فیصد ہی موصول ہوا ہے۔
یوناما کے سربراہ کے مطابق تین ارب ڈالر کی ضرورت ہے لیکن اب تک صرف 900 ملین ڈالر ہی ملے ہیں۔
افغانستان میں سیکورٹی کی صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طالبان کے دور حکومت میں قائم ہونے والی سکیورٹی گذشتہ چند دہائیوں میں بے مثال ہے لیکن ان کے بقول افغانوں کو اب بھی ترقی، نمو اور انسانی شعبوں میں مسائل کا سامنا ہے۔
سلامتی کونسل کے اجلاس کے کئی شرکا نے طالبان حکومت سے عائد پابندیاں ہٹانے اور عالمی برادری کے ساتھ بات چیت کو مضبوط بنانے کا مطالبہ کیا۔
اینٹنی بلنکن کو حاضر ہونے کا حکم
امریکی ایوان نمائندگان کی خارجہ امور کی کمیٹی نے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کو 2021 میں افغانستان سے تباہ کن امریکی انخلا کے معاملے پر 24 ستمبر کو پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق کمیٹی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر وزیر خارجہ بلنکن عدالت میں پیش نہیں ہوتے ہیں تو چیئرمین اس کے بجائے ایک کمیٹی کے ذریعے ایک رپورٹ پیش کریں گے جس میں امریکی ایوان نمائندگان کی جانب سے وزیر بلنکن کو کانگریس کی توہین کا مرتکب قرار دینے کی سفارش کی جائے گی۔
اس سے قبل کمیٹی چاہتی تھی کہ بلنکن 19 ستمبر کو پیش ہوں۔ امریکی محکمہ خارجہ نے رواں ماہ کے اوائل میں کہا تھا کہ بلنکن کمیٹی کی جانب سے تجویز کردہ تاریخوں پر گواہی دینے کے لیے دستیاب نہیں ہیں لیکن انہوں نے ’معقول متبادل‘ تاریخیں تجویز کی ہیں۔
سٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے بدھ کو روئٹرز کی جانب سے تبصرہ کرنے کی درخواست پر فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔
ریپبلکن پارٹی کی زیر قیادت کمیٹی کئی سالوں سے افغانستان سے ہلاکت خیز اور افراتفری سے بھرے انخلا کی تحقیقات کر رہی ہے اور اگلے ہفتے بلنکن کی جانب سے قانون سازوں کے سامنے پیشی 5 نومبر کو ہونے والے انتخابات سے چند ہفتے قبل کی جائے گی۔
محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے ستمبر کے اوائل میں بتایا تھا کہ بلنکن نے کانگریس کے سامنے افغانستان کے بارے میں 14 سے زیادہ بار گواہی دی ہے، جس میں کمیٹی کے سامنے چار بار بھی شامل ہے، اور سٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے کمیٹی کو تقریبا 20 ہزار صفحات کا ریکارڈ، متعدد اعلی ٰ سطحی بریفنگ اور نقل شدہ انٹرویو فراہم کیے ہیں۔