بلوچستان پولیس کے مطابق ضلع دکی میں نامعلوم افراد نے جمعرات کی رات فائرنگ کر کے کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے 20 افراد کو قتل کر دیا جبکہ سات زخمی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کوئٹہ شہر کے مشرق میں واقع دکی کے تھانے کے ایس ایچ او ہمایوں خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’مسلح افراد کے ایک گروپ نے رات گئے دکی کے علاقے میں جنید کول کمپنی کی کانوں پر بھاری ہتھیاروں سے حملہ کیا اور راکٹ اور دستی بم بھی داغے۔‘
ایس ایچ او کے مطابق جان سے جانے والے کان کنوں میں پاکستانی شہریوں کے علاوہ افغان بھی شامل ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 17 لاشیں دکی کی سول ہسپتال منتقل کر دی گئی ہیں، جب کہ حملے میں سات کان کن زخمی بھی ہوئے۔
ایس ایچ او کا کہنا تھا کہ جان سے جانے والے پاکستانی مزدوروں کا تعلق بلوچستان کے علاقوں کچلاک، قلعہ سیف اللہ، ژوب وغیرہ سے تھا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق دکی کے ایک ڈاکٹر جوہر خان شادیزئی نے بتایا: ’ہمیں اب تک ضلعی ہسپتال میں 20 لاشیں اور چھ زخمی موصول ہوئے ہیں۔‘
بلوچستان کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں پر اس سے قبل بھی حملوں کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔
اس سے قبل جنوری 2021 میں بلوچستان کے ضلع کچھی کے علاقے مچھ میں 10 افراد کو اس وقت اغوا کرلیا گیا تھا، جب وہ سو رہے تھے، بعدازاں ان کی شناخت کے بعد انہیں ’بے دردی‘ سے قتل کر دیا گیا۔ اس واقعے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی تھی اور جان سے جانے والوں کا تعلق ہزارہ برادری سے تھا۔
مذمت
وزیراعظم محمد شہباز شریف نے بلوچستان کی تحصیل دکی میں کان کنوں پر ’دہشت گردوں‘ کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے واقعے کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔
اسلام آباد میں ایوان وزیراعظم سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق وزیراعظم نے قیمتی جانوں کے نقصان پر دکھ اور رنج کا اظہار کرتے ہوئے زخمی ہونے والوں کی جلد صحت یابی کی دعا کی اور انہیں ہر ممکن طبی امداد فراہم کرنے کی ہدایات جاری کیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ ’حکومت ہر قسم کی دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے پر عزم ہے۔‘
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے ایک الگ بیان میں کہا کہ ’المناک واقعہ میں ملوث شرپسند عناصر قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکیں گے۔‘