پاکستان میں تعینات افغان سفیر کا کہنا ہے کہ ٹرانزٹ ٹریڈ کو اور لوگوں کی نقل و حرکت کو سیاست سے نہیں جوڑا جائے تو مسئلے حل ہو سکتے ہیں۔
اسلام آباد میں تعینات افغان طالبان کے سفیر سردار احمد شکیب نے منگل کو انڈپینڈنٹ اردو کو انٹرویو میں بتایا کہ ’پشاور، چمن اور طورخم میں سڑکوں کی بندش کے خلاف احتجاج بھی ہوئے۔ ٹرانزٹ ٹریڈ پر اور لوگوں کی نقل و حرکت کو سیاست سے نہیں جوڑا جائے تو مسئلے حل ہو جائیں گے۔ امید کرتا ہوں کہ دونوں ممالک کی مشکلات کو ڈائیلاگ کے ذریعہ حل کریں گے۔‘
افغان سفیر نے پاکستان اور افغانستان کے مابین تجارت پر بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ ان کے ملک کی اس معاملے پر تمام پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات کی پالیسی ہے تاکہ عوام کی مشکلات کم ہوں۔
’افغانستان دونوں ملکوں کے درمیان ٹرانزٹ تجارت کے لیے جدید معاہدہ چاہتا ہے، جس میں رکاوٹ نہ کھڑی کی جائے۔‘
افغان سفیر نے کہا ’جب بھی کسی پھل کا موسم آتا ہے تو بارڈر کو اکثر بند کر دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ویزوں کا اجرا، کراچی بندرگاہ پر رکاوٹ اور عوام کی نقل و حرکت کو محدود کیا جانا بھی مسائل میں شامل ہیں۔ پاکستان اگر ان مسائل پر دھیان دے تو اس سے دونوں ممالک کو فائدہ ہوگا۔‘
اس سوال کہ کیا یہ رکاوٹیں صرف پاکستان کی جانب سے ہیں؟ کیا افغانستان نے اس ضمن میں پاکستان سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے؟ پر افغان سفیر نے جواب دیا کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان تجارت میں رکاوٹیں صرف پاکستان کی جانب سے ہیں جس سے متعلق ان کا ملک آگاہ کر چکا ہے۔
اسلام آباد میں افغان طالبان کے سفیر سردار احمد شکیب نے کہا کہ ’اگر افغانستان یا پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عناصر ہیں تو اسے پاکستان اچھی طرح کنٹرول کر سکتا ہے۔‘
پاکستان کی جانب سے افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کی تفصیلات شیئر کرنے پر افغان سفیر نے کہا ٹی ٹی پی تقریبا 20 سال سے پاکستان میں موجود ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ہماری پالیسی ہے کہ ہم اپنی زمین کسی کے خلاف استمعال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘
سفیر نے کہا: ’ٹی ٹی پی کی حمایت کرنا افغان امارت اسلامیہ کی پالیسی نہیں ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان طویل بارڈر ہے، اگر افغانستان یا پاکستان میں ٹی ٹی پی کے عناصر موجود ہیں تو اسے پاکستان اچھی طرح کنٹرول کر سکتا ہے۔ لیکن ہمارا اس پر یقین ہے کہ افغانستان کا پاکستان میں عدم استحکام میں کوئی ہاتھ نہیں ہے بلکہ افغان حکومت یہاں استحکام لانے میں جو کردار کر سکتی ہے وہ ضرور کرے گی۔‘
افغانستان نے رواں سال اگست میں ٹی ٹی پی کی موجودگی سے متعلق بیان دیا تھا کہ ’پاکستان نے افغان حکومت کو ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی کے کوئی شواہد پیش نہیں کیے‘ جس کی پاکستان کے دفتر خارجہ نے بعد ازاں تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان نے کئی مواقع پر ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی کے معاملے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔
دفتر خارجہ کے مطابق اس میں افغان حکام کے ساتھ دو طرفہ بات چیت بھی شامل ہے۔ بلکہ پاکستان نے افغانستان میں مقیم افراد کے ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد شیئر کیے ہیں۔