چیٹ جی پی ٹی نے انسانی زندگی بے حد آسان بنا دی ہے۔ پہلے جو ہم گوگل سے دس منٹ میں پوچھا کرتے تھے، اب ہم وہ چیٹ جی پی ٹی سے ایک منٹ میں پوچھ لیتے ہیں۔
ہم چیٹ جی پی ٹی کو بطور سرچ انجن استعمال کرنے لگے ہیں۔ ادھر ہمارے ذہن میں سوچ آتی ہے ادھر ہم اس سوچ کو چیٹ جی پی ٹی کے حوالے کر دیتے ہیں۔
تعلیمی اداروں میں یہ صورت حال مزید تشویشناک ہے۔ طالب علموں سے کوئی سوال پوچھا جائے یا انہیں کوئی مشق کرنے کے لیے دی جائے وہ فوراً چیٹ جی پی ٹی پر چلے جاتے ہیں۔ انہیں کچھ کہا بھی نہیں جا سکتا۔ ہر بات ان کے حقوق کے خلاف ہو جاتی ہے۔
لیکن ان کا چیٹ جی پی ٹی پر حد سے بڑھتا ہوا انحصار دیکھ کر ان کے مستقبل سے خوف آتا ہے۔
ہمارے تعلیمی ادارے پہلے ہی کئی مسائل کا شکار ہیں۔ وہاں سے نکلنے والے طالب علم سالوں کی تعلیم کے بعد بھی موجودہ دور کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ انہیں بولنا تک نہیں آتا۔ سوچنا تو بہت دور کی بات ہے۔
اگر اس صورت حال میں وہ اپنا ہر کام چیٹ جی پی ٹی کے حوالے کر دیں گے تو اپنی رہی سہی صلاحیتوں کو بھی کھو دیں گے۔
چیٹ جی پی ٹی اور اس جیسی ٹیکنالوجیز کا استعمال برا نہیں ہے لیکن ہر کام کے لیے ان پر مکمل انحصار کرنا برا ہے۔ خصوصاً طالب علموں کے لیے جو تعلیمی اداروں میں سیکھنے آتے ہیں۔ اگر وہ سیکھنے کی کوشش ہی نہیں کریں گے تو کچھ بھی نہیں سیکھ پائیں گے۔
ابھی انہیں کوئی تحریر لکھنی ہو، کسی پروگرام کا ڈیزائن بنانا ہو، کسی قسم کا حساب کرنا ہو یا کسی موضوع کے متعلق معلومات حاصل کرنی ہوں، وہ فوراً چیٹ جی پی ٹی کھولتے ہیں اور اسے وہ کام سونپ دیتے ہیں۔
چیٹ جی پی ٹی چند سیکنڈ میں ان کا وہ کام کر دیتا ہے لیکن کیا وہ کام ٹھیک اور بہترین ہوتا ہے؟ اس کا انحصار کام کی نوعیت پر ہے۔
ای میل لکھنے کے لیے چیٹ جی پی ٹی بہترین ہے۔ انگریزی ہماری زبان نہیں ہے۔ اچھی سی انگریزی میں ای میل لکھنی ہو تو چیٹ جی پی ٹی کی مدد لے لیں۔ اسے ای میل لکھنے کی ہدایات دیں، یہ ان کے مطابق ایک ای میل لکھ دے گا۔
لیکن اگر اس ای میل میں کچھ سوچ کر لکھنا ہو تو چیٹ جی پی ٹی یہ کام نہیں کر سکتا۔ مثلاً میں اسے کہوں کہ اس موضوع پر فلاں اخبار کے مدیر کے لیے ایک فیچر کا آئیڈیا لکھ دو تو وہ ایک سطحی سا جواب لکھ دے گا۔ مجھے اس جواب پر نئے سرے سے کام کرنا پڑے گا۔
ہمیں سمجھنا چاہیے کہ چیٹ جی پی ٹی ایک چیٹ باکس ہے۔ یہ مصنوعی ذہانت کی مدد سے قدرتی زبان کو سمجھنے اور تحریر پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسے مضامین کے ایک بڑے ڈیٹا پر تربیت دی گئی ہے۔ یہ اپنی یادداشت میں موجود ڈیٹا کی زبان کے پیٹرن کے مطابق انسانی طرز کے جوابات تیار کرتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ جوابات اکثر صحیح ہوتے ہیں لیکن چیٹ جی پی ٹی غلط جوابات بھی دے سکتا ہے۔ چیٹ جی پی ٹی خود اس کا اعتراف کرتا ہے۔
یہ جوابات ایک پیٹرن کے مطابق دیتا ہے۔ یہ انٹرنیٹ کا استعمال بھی کر سکتا ہے۔ اس کا چیٹ جی پی ٹی پلس ماڈل بہت سے پیچیدہ کام بے حد آسانی سے کر سکتا ہے لیکن وہ بھی انسانی ذہانت کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔
چیٹ جی پی ٹی اکیڈمک رائٹنگ بھی کر سکتا ہے لیکن اس کی تحریر مکمل طور پر صحیح نہیں ہوتی۔ اس کے حوالہ جات ٹھیک نہیں ہوتے۔ چیک کیے جائیں تو وہ انٹرنیٹ پر موجود ہی نہیں ہوتے۔
یہ ہر ثقافت اور اس کی پیچیدگیوں کو بھی نہیں سمجھتا۔ یہ دو جمع دو چار کر سکتا ہے لیکن جہاں اسے کوئی کام سوچ بچار کے لیے دیا جائے یا کسی مخصوص سیاق و سباق کے ساتھ دیا جائے، وہاں یہ مار کھا جاتا ہے۔
یہاں سوشل سائنسز کے طالب علم پکڑے جاتے ہیں۔ انہیں کوئی اسائنمنٹ دی جائے تو وہ فوراً اسے چیٹ جی پی ٹی سے حل کروا کر جمع کروا دیتے ہیں۔ وہ غالباً خود بھی اس اسائنمنٹ کو پڑھنے کی کوشش نہیں کرتے۔
اگر وہ اس اسائنمنٹ کو آگے بھیجنے سے پہلے ایک نظر پڑھ لیں تو انہیں پتہ چلے کہ چیٹ جی پی ٹی اصل دنیا کے مسائل کا حل پیش کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس سے ایسے سوال پوچھنا اور اس کے جوابات پر یقین رکھنا مشین کے آگے مشین بننے کے برابر ہے۔
انہیں چیٹ جی پی ٹی کا استعمال بطور ایک معاون ٹول کرنا چاہیے۔ اسے سرچ انجن اور اپنے دماغ کے متبادل کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ چیٹ جی پی ٹی کا ایسا استعمال ان کی سوچ کو محدود کر رہا ہے۔
چیٹ جی پی ٹی دنیا نہیں چلا سکتا۔ اسے خود چلنے کے لیے انسانوں کی ضرورت ہے۔ یہ ایک ٹول ہے، سرچ انجن نہیں۔ یہ ہماری مدد کر سکتا ہے لیکن ہماری جگہ نہیں لے سکتا۔ اگر ہم اسے اپنی سوچ کا متبادل بنا لیں گے تو ہم اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے محروم ہو جائیں گے اور اپنی دنیا کو مزید مسائل کا شکار بنائیں گے اور ان مسائل کا حل چیٹ جی پی ٹی کے پاس نہیں ہوگا۔
اس لیے ضروری ہے کہ ہم چیٹ جی پی ٹی کا استعمال حدود میں کریں۔ اسے صرف وہاں استعمال کریں جہاں واقعی ضرورت ہو اور اپنی سوچنے، سمجھنے اور تخلیق کرنے کی صلاحیتوں کو برقرار رکھیں۔