بلوچستان کے لیے زیر غور نئے پیکج کے اہم نکات کیا ہیں؟

ویسے تو بلوچستان کے لیے وقتاً فوقتا مختلف حکومتوں نے ترقیاتی پیکج دیے ہیں جن کی کامیابی یا ناکامی پر زیادہ بات نہیں ہوئی لیکن اب ایک اور نئے پیکج کی تیاری کی اطلاعات ہیں۔

بلوچستان سے اچھی خبریں کم ہی قومی سطح پر سامنے آتی ہیں۔ میڈیا نے بلوچستان کی کوریج کے اعتبار سے بھی اپنا مکمل حق ادا نہیں کیا۔ ملک کے دیگر حصوں میں بیٹھے ہوں تو ایسے لگتا ہے کہ صوبے میں صرف شورش اور تشدد کا ہی راج ہے لیکن طویل عرصے کے بعد کوئٹہ کے دورے میں ایک اچھی خبر ملی۔

ویسے تو بلوچستان کے لیے وقتاً فوقتا مختلف حکومتوں نے ترقیاتی پیکج دیے ہیں جن کی کامیابی یا ناکامی پر زیادہ بات نہیں ہوئی لیکن ایک نئے پیکج کی تیاری کسی بھی طرح خوش آئند ہے۔ عام بلوچ کے بارے میں سوچنا بڑی بات ہے۔

صوبائی دارالحکومت میں حکام سے ملاقاتوں اور بات چیت سے معلوم ہوا کہ ’محفوظ اور خوشحال بلوچستان‘ کے نام سے ایک نئے پیکج پر مشاورت جاری ہے۔ ابھی اس کے حتمی خدوخال تو سامنے نہیں آئے اور یہ پیکج ابھی بالکل انتہائی ابتدائی مشاورت سے گزر رہا ہے لیکن بڑی اہم تجاویز زیر غور ہیں۔

مذاکرات

اگرچہ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی فریق سے سیاسی مذاکرات کے ذریعے بلوچستان کے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے تیار ہے لیکن فریقین کے درمیان اس پر کوئی زیادہ گرمجوشی دکھائی نہیں دیتی۔ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کی کارروائیوں میں اضافہ دکھائی دے رہا ہے۔ فی الحال ان کا بظاہر مذاکرات کا کوئی موڈ نہیں۔

بلوچستان کو نیک نیتی سے سیاسی مکالمے کی ضرورت پہلے سے کہیں آج زیادہ ہے۔ حکومت، سیاسی رہنماؤں، اسٹیبلشمنٹ اور عسکریت پسندوں کو مل بیٹھ کر معاملات کی درستگی کے لیے اقدام کرنا ہوں گے۔ ماضی کی روایت سے ہٹ کر بلوچستان کی بااثر شخصیات کو شورش پسندوں کے ساتھ مذاکرات کرنے والوں کو آئین پاکستان کے اندر رہتے ہوئے کوئی بھی فیصلہ کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔

بلوچ اراکین پارلیمان کی ایک طاقتور پارلیمانی کمیٹی اس اہم مقصد کے لیے مفید ثابت ہوسکتی ہے۔

قومی اسمبلی میں بلوچستان کا حصہ بڑھانا

340 سے زائد کے موجودہ ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں بلوچستان کی آبادی کے اعتبار سے نشستیں محض سولہ عام اور چار مخصوص ہیں۔ ایسے میں بلوچستان کی آواز کون سنے گا۔ اسے تبدیل کر کے بڑھانے کی تجویز ہے۔

بلوچستان کے پاس قومی اسمبلی کی جتنی نشستیں ہیں اس سے زیادہ نشستیں پنجاب کے دو اضلاع سے ہیں۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سرادر اختر مینگل نے گذشتہ دنوں استعفی دیا تو کسی نے زیادہ نوٹ نہیں کیا۔ کئی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر وہ واحد کی بجائے دس پندرہ اراکین کے ساتھ قومی اسمبلی سے مستعفی ہوتے تو کیا حکومتیں اسی طرح انہیں کوئی لفٹ نہ کراتیں۔

دو صوبائی دارالحکومت

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انتہائی سردی کے تین ماہ جہاں رہنا مشکل ہو جاتا ہے اور جہاں جنوبی ساحلی علاقے سے اپنی شکایت لے کر کسی کے لیے آنا ناممکن ہو ایسے میں صوبے کے جغرافیائی اعتبار سے درمیان میں واقعے کوئٹہ اپنی افادیت کھو دیتا ہے۔ اسے دور کرنے کے لیے تربت یا کسی دوسرے مکران کے شہر کو چھ ماہ کے لیے سرمائی دارالحکومت بنانے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔

صوبے کی تقسیم

رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا تقریبا نصف بلوچستان کو انتظامی طور پر چلانا بھی ایک بڑا مشکل کام ہے۔ کسی زمانے میں تربت سے گوادر کا تکلیف دہ سفر سات آٹھ گھنٹوں پر محیط ہوتا تھا۔ اس کا حل صوبے کو دو حصوں میں تقسیم کرنے بھی ہے۔

لیکن پاکستان میں نئے صوبوں کی تخلیق سیاسی طور پر مشکل رہی ہے۔ آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے پنجاب کو لے لیں، ماضی میں اور تحریک انصاف کی حکومت میں جنوبی پنجاب کا نیا صوبہ بنانے کی بات ہوئی لیکن عملی جامع آج تک نہیں پہنایا جا سکا ہے۔

صوبے کی تقسیم تو بعد کی بات چند سال پہلے آمدن کے اعتبار سے اہم ضلع لسبیلہ کی تقسیم کی تجویز بھی اپنی موت آپ مر گئی۔

لوکل باڈیز انتخابات

اگرچہ پاکستان میں گذشتہ عام انتخابات پر، خصوصا بلوچستان میں دھاندلی کو عام حلقوں میں ایک حقیقت کے طور پر مانا جاتا ہے جسے دوبارہ کروانے کے امکانات میسر نہیں لیکن ایک حل بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہو سکتا ہے۔ اس سے امید کی جا رہی ہے کہ نئی اور اصل نوجوان قیادت سامنے آ سکتی ہے اور شاید لوگوں کی شکایت بھی کم ہو۔

یہ تجاویز یقینا سیاسی طور پر بہت حساس اور نتنازع ہیں لیکن بلوچستان بھی اس نہج پر پہنچا ہوا ہے کہ جسے غیرمعمولی توجہ اور حل کی ضرورت ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان