پاکستان اور انڈیا کے درمیان سیز فائر کے بعد سکیورٹی حکام کے مطابق واہگہ اٹاری بارڈر دونوں طرف سے بند ہے، تاہم سرحد سے منسلک پاکستانی علاقوں میں زندگی معمول کے مطابق رواں دواں ہے۔
واہگہ بارڈر سے پانچ، چھ کلومیٹر دور لاہور کا پہلا قصبہ باٹا پور ہے۔
یہ وہ مقام ہے، جہاں 1965 میں چھ ستمبر کو انڈین فوج نے حملہ کیا تھا، لیکن دو دن بعد پاکستانی فوج کی بلوچ رجمنٹ نے انہیں پیچھے دھکیل دیا تھا۔
اس دوران متعدد پاکستانی فوجی جان سے گئے تھے، جن کی یادگارِ شہدا اس علاقے میں تعمیر کی گئی ہے۔
اس علاقے کو واہگہ بارڈر کے 85 گاؤں لگتے ہیں اور ہر گاؤں میں لوگ معمول کے مطابق اپنے کام کر رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
باٹا پور کے تاجروں اور اطراف کے گاؤں سے یہاں آنے والوں کا کہنا ہے کہ جب سے پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ کشیدگی ہوئی ہے، وہ خطرے کے باوجود معمول کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں۔
تاہم جنگ بندی کے باوجود مقامی افراد کو یقین نہیں کہ انڈین وزیراعظم نریندر مودی حملے سے باز رہیں گے۔
مقامی لوگوں کے مطابق یہ حالات نئے نہیں بلکہ 1965 اور 1971 کی جنگوں کے بعد بھی کئی بار کشیدگی کے دوران وہ غیر یقینی صورت حال میں جینے کے عادی ہو چکے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی فوج نے ہمیشہ کامیابی سے دفاع کیا اور اس بار بھی انڈیا کو موثر جواب دیا۔
مقامی رہائشی تصدق حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ہم مطمئن بیٹھے ہیں، ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہے۔ ہماری افواج آگے بیٹھی ہیں، ہمارے مجاہد بیٹھے ہیں آگے، ہمیں کوئی پریشانی نہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ہم افواج کے ساتھ ہیں۔۔۔ ہم ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔‘
انڈیا اور پاکستان کی فوجیں گذشتہ ہفتے سے سنگین تصادم میں مصروف تھیں، جب انڈیا نے چھ اور سات مئی کی درمیانی شب پاکستان کے اندر اہداف کو نشانہ بنایا۔ نئی دہلی کا کہنا تھا کہ اس نے ان عسکریت پسندوں کو نشانہ بنایا، جو 22 اپریل کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں 26 سیاحوں کے قتل عام کے ذمہ دار تھے۔ پاکستان نے حملہ آوروں سے کسی بھی تعلق کی تردید کی ہے۔
پاکستان میں انڈیا کے حملوں کے بعد، دونوں فریقوں کے درمیان لائن آف کنٹرول پر شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس کے بعد ایک دوسرے کے علاقوں میں میزائل اور ڈرون حملے کیے گئے، جن میں بنیادی طور پر فوجی تنصیبات اور ایئر بیسز کو نشانہ بنایا گیا۔
جوہری ہتھیاروں سے لیس حریفوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے علاقائی امن کو خطرے میں ڈال دیا، جس کے نتیجے میں عالمی رہنماؤں نے دونوں سے تحمل سے کام لینے کی اپیل کی۔
بعدازاں امریکہ کی ثالثی میں دونوں ممالک نے نو مئی کو سیزفائر پر اتفاق کیا تھا۔