انڈیا: ’ترکی سے منسلک‘ ایوی ایشن کمپنی کی سکیورٹی کلیئرنس منسوخ

15 مئی کو جاری کیا گیا یہ حکم نامہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب ترکی نے پہلگام حملے کے بعد ’آپریشن سندور‘ کے تحت پاکستان میں انڈین حملوں کی مذمت اور اسلام آباد کی حمایت کی، جس کے نتیجے میں انڈیا اور ترکی کے تعلقات میں تناؤ پیدا ہوا۔

نئی دہلی میں 17 نومبر 2023 کو اندرا گاندھی بین الاقوامی ہوائی اڈے کا ایک منظر۔ جالیبی ایوی ایشن کمپنی نئی دہلی، ممبئی اور چنئی سمیت نو بڑے انڈین ایئرپورٹس پر اہم ہائی سکیورٹی آپریشنز کی ذمہ دار ہے (سجاد حسین/ اے ایف پی)

انڈیا نے جمعرات کو ’قومی سلامتی کے مفاد‘ کے تحت ترکی سے منسلک جالیبی ایوی ایشن کی سکیورٹی کلیئرنس منسوخ کر دی۔

نیوز ویب سائٹ ’انڈیا ٹوڈے‘ کے مطابق یہ ایوی ایشن کمپنی انڈین ہوائی اڈوں پر مسافروں اور کارگو کے انتظام کی خدمات فراہم کرتی ہے۔

15 مئی کو جاری کیا گیا یہ حکم نامہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب ترکی نے پہلگام حملے کے بعد ’آپریشن سندور‘ کے تحت پاکستان میں انڈین حملوں کی مذمت اور اسلام آباد کی حمایت کی، جس کے نتیجے میں انڈیا اور ترکی کے تعلقات میں تناؤ پیدا ہوا۔

رپورٹ کے مطابق بیورو آف سول ایوی ایشن سکیورٹی (بی سی اے ایس) نے جالیبی ایئرپورٹ سروسز انڈیا پرائیویٹ لمیٹڈ کی سکیورٹی کلیئرنس کو فوری طور پر منسوخ کر دیا۔

کمپنی کو 21 نومبر 2022 کو گراؤنڈ ہینڈلنگ ایجنسی کے زمرے کے تحت کلیئرنس دی گئی تھی۔

رپورٹ کے مطابق انڈیا کی شہری ہوا بازی کی وزارت کے ذرائع نے بتایا کہ فی الحال ان ایئرپورٹس کو متبادل ایجنسیوں کے ساتھ مل کر زمینی ہینڈلنگ کے عبوری انتظامات کرنے کی ضرورت ہوگی، جو جالیبی کی خدمات حاصل کر رہی تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ کمپنی نئی دہلی، ممبئی اور چنئی سمیت نو بڑے انڈین ایئرپورٹس پر اہم ہائی سکیورٹی آپریشنز کے لیے ذمہ دار ہے اور گراؤنڈ ہینڈلنگ، کارگو سروسز اور ایئر سائیڈ آپریشنز سنبھالتی ہے، جنہیں ہائی سکیورٹی خدمات قرار دیا جاتا ہے۔

امید ہے کہ ان نو ایئرپورٹس پر، جہاں جالیبی ایوی ایشن کام کر رہی تھی، وہاں نئے سروس فراہم کنندگان کی تقرری کے لیے جلد ہی ٹینڈرز جاری کیے جائیں گے۔

کچھ دن قبل ہندو انتہا پسند شیو سینا کے ایک رکن اسمبلی مرجی پٹیل نے چیف ایئر پورٹ آفیسر کو خط لکھ کر جالیبی ایوی ایشن کی آپریشنل اجازت کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

مرجی پٹیل نے کہا تھا کہ ترکی کی جانب سے پاکستان کی حمایت شدید خدشات کو جنم دیتی ہے، خاص طور پر اس وقت جب ترک حکومت سے وابستہ کمپنیاں انڈیا کے سب سے حساس انفراسٹرکچر زون میں کام کرتی رہیں۔

تاہم جالیبی کمپی نے اپنی ملکیت اور آپریشنز کے بارے میں تمام ’گمراہ کن اور حقائق سے متعلق غلط الزامات‘ کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا: ’ہم پیشہ ورانہ، عالمی سطح پر چلنے والی ایوی ایشن سروسز کمپنی ہیں۔ آج ہم کینیڈا، امریکہ، برطانیہ، سنگاپور، متحدہ عرب امارات اور مغربی یورپ کے بین الاقوامی ادارہ جاتی سرمایہ کاروں کی اکثریت کی ملکیت (65 فیصد) ہیں۔‘

کمپنی نے واضح کیا کہ یہ ترک حکومت کا ادارہ نہیں ہے۔ بیان کے مطابق: ’انڈیا میں جالیبی کا کاروبار مکمل طور پر ایک انڈین ادارہ ہے، جس کی قیادت اور انتظام انڈین پیشہ ور افراد کرتے ہیں، ملک میں بھرپور سرمایہ کاری کی گئی ہے اور ہم اس کی ترقی کے لیے پرعزم ہیں۔‘

کمپنی نے سیاسی رابطوں کی افواہوں کو بھی مسترد کیا اور کہا: ’ہم واضح طور پر ایک اور جھوٹے دعوے کو مسترد کرتے ہیں، جس میں پروپیگنڈا کیا جا رہا تھا کہ محترمہ سمیے اردوغان کی بیٹی کمپنی کے ایک حصے کی مالک ہیں۔ سمیے نام کا کوئی بھی شیئر ہولڈر نہیں ہے، ترک شیئر ہولڈنگ صرف جالیبی اوگلو خاندان کے افراد تک محدود ہے، جن کی کوئی سیاسی وابستگی نہیں ہے۔‘

کمپنی نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ وہ 15 سال سے انڈیا میں کام کر رہی ہے اور 10 ہزار سے زائد انڈین شہریوں کو ملازمت فراہم کرنے کے علاوہ بنیادی ڈھانچے میں 220 ملین امریکی ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کر چکی ہے۔

مزید کہا گیا کہ ’ہم انڈین ہوا بازی، قومی سلامتی اور ٹیکس کے ضوابط کی مکمل تعمیل کرتے ہیں اور مکمل شفافیت کے ساتھ کام کرتے ہیں۔‘

ترکی کی پاکستان کی حمایت پر انڈیا ناراض

انڈیا نے 22 اپریل کو اپنے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے حملے کا الزام اسلام آباد پر عائد کرتے ہوئے چھ اور سات مئی کی درمیانی شب پاکستان کے مختلف مقامات پر حملے کیے تھے۔

پاکستان پہلگام حملے میں ملوث ہونے کے انڈین الزام کی تردید کرتا ہے۔

پاکستان میں انڈیا کے حملوں کے بعد، دونوں فریقوں کے درمیان لائن آف کنٹرول پر شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس کے بعد ایک دوسرے کے علاقوں میں میزائل اور ڈرون حملے کیے گئے، جن میں بنیادی طور پر فوجی تنصیبات اور ایئر بیسز کو نشانہ بنایا گیا جبکہ پاکستان نے انڈیا کے تین فرانسیسی رفال لڑاکا طیاروں سمیت کئی طیارے مار گرائے۔

جوہری ہتھیاروں سے لیس حریفوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے علاقائی امن کو خطرے میں ڈال دیا، جس کے نتیجے میں عالمی رہنماؤں نے دونوں کو تحمل سے کام کرنے کی اپیل کی اور بالآخر 10 مئی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی میں دونوں فریق سیزفائر پر راضی ہوگئے۔

اس تمام عرصے میں ترکی نے پاکستان کی مکمل حمایت کا اعلان کیا، جس کے بعد انڈیا میں اس پر شدید ردعمل سامنے آیا۔

انڈیا میں ترک مصنوعات اور سیاحت کے بائیکاٹ کے مطالبات بھی زور پکڑ رہے ہیں۔

دوسری جانب انڈین تاجروں نے مبینہ طور پر ترک سیب اور ماربل جیسی درآمدات کا بائیکاٹ شروع کر دیا ہے۔ تجارتی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ سفارتی تنازع تعلقات کو مزید کشیدہ کر سکتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا