پاکستان سے سیز فائر میں امریکہ کا کوئی کردار نہیں تھا: انڈین سیکریٹری خارجہ

انڈین سیکرٹری خارجہ وکرم مسری کے مطابق سیز فائر کی درخواست اسلام آباد کی طرف سے آئی تھی اور اس معاملے میں کسی ’تیسرے فریق کی ثالثی‘ شامل نہیں تھی۔

انڈیا کے سکریٹری خارجہ وکرم مصری 10 مئی 2025 کو نئی دہلی میں ایک پریس بریفنگ کے دوران بات کر رہے ہیں (ارون سنکر/ اے ایف پی)

انڈیا کے سیکرٹری خارجہ وکرم مسری نے پیر کو ’آپریشن سندور‘ کے بارے میں اپنی پارلیمٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کو تفصیلی بریفنگ کے دوران بتایا ہے کہ پاکستان کے ساتھ ہونے والے سیزفائر میں امریکہ کا کوئی کردار نہیں تھا۔

انڈین نیوز ویب سائٹ ’این ڈی ٹی وی‘ کے مطابق یہ بات انڈین سیکریٹری خارجہ وکرم مسری نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے انڈیا اور پاکستان کے درمیان ’جوہری جنگ‘ کو روکنے اور مسئلہ کشمیر کو ’حل‘ کرنے کے دعوؤں کے بارے میں سوالات کے جواب میں کہی۔

رپورٹ کے مطابق پارلیمانی کمیٹی کو بتایا گیا کہ ’انڈین فوج کی جانب سے پاکستانی فوج کی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے بعد، جس میں لاہور میں چینی ساختہ HQ-9 سسٹم اور سٹریٹجک لحاظ سے اہم نور خان ایئر بیس بھی شامل ہے، پاکستان نے 10 مئی کی دوپہر سیزفائر کے لیے رابطہ کیا۔‘

وکرم مسری نے کمیٹی کو بتایا کہ سیز فائر کی درخواست اسلام آباد کی طرف سے آئی، خاص طور پر پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کی طرف سے، جنہوں نے نئی دہلی میں اپنے ہم منصب سے رابطہ کیا۔

انڈین سیکریٹری خارجہ نے پارلیمانی کمیٹی کو یقین دلایا کہ اس معاملے میں کسی ’تیسرے فریق کی ثالثی‘ شامل نہیں تھی۔

بریفنگ کے دوران انڈین سیکرٹری خارجہ سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ان دعوؤں کے بارے میں بھی بہت سے سوالات پوچھے گئے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ انہوں نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان ’امن‘ کے لیے ثالثی کی تھی۔

وکرم مسری نے کمیٹی کو بتایا: ’حکومت نے یہ بات بالکل واضح کر دی ہے کہ نہ تو مسٹر ٹرمپ اور نہ ہی ان کی انتظامیہ نے انڈین فوج کے پیچھے ہٹنے میں کوئی اہم کردار ادا کیا، جس پر جنگی ماہرین متفق تھے کہ اس نے پاکستان  کو مشکل سے دوچار کر دیا تھا۔ جنگ بندی کی درخواست پاکستان کی طرف سے آئی اور نئی دہلی اسے سننے اور دشمنی ختم کرنے پر راضی ہوا، کیونکہ آپریشن سندور کے تحت مقرر کردہ اہداف پورے ہو چکے تھے۔‘

کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ جنگ بندی کے بدلے میں امریکہ کے ساتھ کسی قسم کے تجارتی معاہدوں کا تبادلہ نہیں کیا گیا اور یہ کہ امریکہ یا پاکستان کے ساتھ کبھی بھی سیز فائر کے لیے ہونے والی بات چیت میں تجارت بطور موضوع حصہ نہیں رہی۔

سکریٹری خارجہ وکرم مسری نے پارلیمنٹ کو یہ بھی بتایا کہ رواں ماہ کے شروع میں پاکستان کے ساتھ فوجی تنازعے کے دوران اسلام آباد کی طرف سے کسی ’جوہری (جنگ کا) اشارہ‘ نہیں دیا گیا۔

تاہم انہوں نے انڈین طیاروں کے مار گرائے جانے کے حوالے سے کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

انڈیا نے 22 اپریل کو اپنے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے حملے کا الزام اسلام آباد پر عائد کرتے ہوئے چھ اور سات مئی کی درمیانی شب پاکستان کے مختلف مقامات پر حملے کیے تھے۔

پاکستان پہلگام حملے میں ملوث ہونے کے انڈین الزام کی تردید کرتا ہے۔

پاکستان میں انڈیا کے حملوں کے بعد، دونوں فریقوں کے درمیان لائن آف کنٹرول پر شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس کے بعد ایک دوسرے کے علاقوں میں میزائل اور ڈرون حملے کیے گئے، جن میں بنیادی طور پر فوجی تنصیبات اور ایئر بیسز کو نشانہ بنایا گیا جبکہ پاکستان کا کہنا ہے کہ انڈیا کے تین فرانسیسی رفال لڑاکا طیاروں سمیت چھ جنگی طیارے مار گرائے گئے۔

جوہری ہتھیاروں سے لیس حریفوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے علاقائی امن کو خطرے میں ڈال دیا، جس کے نتیجے میں عالمی رہنماؤں نے دونوں کو تحمل سے کام کرنے کی اپیل کی اور بالآخر 10 مئی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اعلان کیا کہ پاکستان اور انڈیا فوری طور پر سیزفائر پر راضی ہوگئے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ اس کے بعد متعدد بیانات میں یہ کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے دونوں روایتی حریفوں میں سیز فائر کے لیے تجارت کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔

گذشتہ جمعے کو امریکی نیوز چینل فوکس نیوز کے میزبان بریٹ بائیر کو انٹرویو میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ پاکستان اور انڈیا جوہری جنگ کے بہت قریب پہنچ چکے تھے۔

جوہری یا نیوکلیئر جنگ کے لیے ’این ورڈ‘ کا استعمال کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ’اگلا مرحلہ جوہری جنگ کا تھا۔۔۔ یہ ایک بہت برا لفظ ہے۔۔۔ اور یہ سب سے بری چیز ہے جو وقوع پذیر ہو سکتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ وہ بہت قریب تھے، نفرت بہت زیادہ تھی۔ اور پھر میں نے کہا کہ ہم تجارت پر بات کر سکتے ہیں، ہم بہت زیادہ تجارت کریں گے۔‘

صدر ٹرمپ نے مزید کہا تھا: ’میں تجارت کو حساب برابر کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہوں، امن قائم کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہوں۔‘

تاہم انڈیا ڈونلڈ ٹرمپ کے ان دعوؤں کی تردید کرتا آیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سے قبل 13 مئی کو بھی انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا تھا کہ پاکستان کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں کے دوران نئی دہلی اور واشنگٹن کے اعلیٰ رہنما رابطے میں تھے، لیکن تجارت پر کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔

رندھیر جیسوال نے امریکی نائب صدر جے ڈی وینس اور انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ساتھ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور ان کے انڈین ہم منصب ایس جے شنکر کے درمیان ہونے والی بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا: ’تجارت کا معاملہ ان میں سے کسی بھی بات چیت کے دوران سامنے نہیں آیا۔‘

ایک طرف جہاں انڈیا سیز فائر میں امریکی صدر کی کسی بھی قسم کی ثالثی اور تجارت پر بات چیت کے دعوؤں سے انکار کر رہا ہے، وہیں پاکستانی دفتر خارجہ یہ کہہ چکا ہے کہ ’انڈیا سے جنگ بندی کئی دوست ممالک کی کوششوں کے نتیجے میں ممکن ہوئی، جنہوں نے ہم سے رابطہ کر کے کشیدگی کم کرنے کا پیغام پہنچایا۔‘

وزیراعظم شہباز شریف بھی متعدد مواقعوں پر امریکی، سعودی عرب، ترکی، آذربائیجان، قطر اور چین سمیت دیگر دوست ممالک کا شکریہ ادا کر چکے ہیں۔

گذشتہ روز کراچی میں نیوی افسران اور اہلکاروں سے خطاب میں بھی انہوں نے ایک مرتبہ پھر سعودی عرب سمیت دوست ممالک کا شکریہ ادا کیا اور انڈیا سے جنگ بندی میں ’کردار ادا‘ کرنے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ’مین آف پیس‘ قرار دیا۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’صدر ٹرمپ نے صدق دل سے جنگ بندی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ دل کی گہرائیوں سے ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا