پاکستان کے مرکزی بینک سٹیٹ بینک آف پاکستان نے عیدالاضحیٰ کے لیے قربانی کے جانوروں کی خرید و فروخت کے لیے مویشی منڈیوں میں ڈیجیٹل ادائیگیوں کو فروغ دینے اور نقد رقم پر انحصار کم کرنے کے لیے ملک بھر میں ’گو کیش لیس‘ مہم شروع کی ہے۔
اس مہم کا باقاعدہ آغاز 20 مئی سے ہوا اور یہ مہم چھ جون 2025 یا عید کی رات تک جاری رہے گی۔
سٹیٹ بینک کی جانب سے پیر کی شام کو جاری اعلامیے کے مطابق: ’یہ سٹریٹجک اقدام پاکستان بھر میں ڈیجیٹل مالی شمولیت کو فروغ دینے کے سٹیٹ بینک کے ہدف کے تحت کیا جا رہا ہے۔‘
سٹیٹ بینک کے اعلامیے کے مطابق ’گذشتہ سال ڈیجیٹلائزیشن کے پائلٹ منصوبے کی کامیابی کے بعد رواں برس کی مہم کا مقصد مارکیٹ کے شرکا کو مزید ڈیجیٹل ذرائع اپنانے کی جانب راغب کرنا ہے۔‘
’گو کیش لیس‘ مہم کیا ہے؟
سٹیٹ بینک اور بینکاری کی صنعت کے اشتراک سے شروع کی گئی اس مہم کا مقصد ملک بھر کی 54 بڑی مقررہ مویشی منڈیوں میں قربانی کے جانوروں کی خرید و فروخت کو سٹریم لائن کرنا ہے۔
مرکزی بینک کے جاری بیان کے مطابق: ’ان مویشی منڈیوں میں ڈیجیٹل ادائیگی کے طریقوں کو مختلف طرح کے لین دین بشمول قربانی کے جانوروں کی خریداری، پانی اور چارے جیسی ضروریات کے لیے رقم کی ادائیگی اور پارکنگ فیس کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
’اس عرصے کے دوران تاجروں اور خریداروں دونوں کی سہولت کے لیے سٹیٹ بینک نے 19 مئی سے 15 جون 2025 تک لین دین کی حد (transaction limit) بڑھا دی ہے۔
جس کے تحت برانچ لیس بینکاری لیول ون کے اکاؤنٹس، آسان اکاؤنٹ، آسان ڈیجیٹل اکاؤنٹ، اور مرچنٹس اکاؤنٹس کی لین دین کی یومیہ حد ختم کرکے ماہانہ حد 50 لاکھ روپے تک بڑھا دی گئی ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’عوام کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ عید الاضحیٰ کی مدت کے دوران آسان اور محفوظ ڈیجیٹل مالی سہولتوں سے فائدہ اٹھائیں۔ عوام ’گو کیش لیس‘ مہم میں شرکت کرکے پاکستان میں زیادہ کارگر اور شمولیتی مالی ایکوسسٹم میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔‘
بیوپاریوں کا ردعمل
سٹیٹ بینک کی جانب سے قربانی کے جانوروں کی خرید و فروخت کے لیے ڈیجیٹل ادائیگی کے لیے شروع کی گئی ’گو کیش لیس‘ مہم کی کامیابی پر کراچی کی مویشی منڈیوں میں جانور فروخت کرنے والے بیوپاریوں نے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
مویشی منڈی میں بکرے فروخت کرنے والے میرپورخاص کے پنہور گوٹ فارم کے مالک محمد حیات پنہور نے نقد ادائیگی کے بجائے ڈیجیٹل ادائیگی کو بہتر اور محفوظ قرار دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے محمد حیات پنہور نے کہا: ’قربانی کے جانور کی بھاری قیمت ہوتی ہے۔ کئی بار پھٹے، پرانے اور قلم سے تحریر لکھے ہوئے نوٹ ملتے ہیں، جن کو کوئی نہیں لیتا۔ کئی بار نقلی نوٹ بھی ملتے ہیں۔
’اس کے علاوہ، آج کل کے حالات میں بھاری رقم کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا رسک ہوتا ہے۔ جانوروں کے بیوپاری اور خریداروں کو سٹیٹ بینک کی اس مہم میں پھرپور حصہ لے کر فائدہ اٹھانا چاہیے۔‘
کراچی کے سپر ہائی وے پر قائم مویشی منڈی میں سٹال لگانے والے نوشہرو فیروز کے بیوپاری سائیں داد چانڈیو نے خرید و فروخت کے لیے ڈیجیٹل ادائیگی کے بجائے نقد رقم میں کاروبار کو ترجیح دی۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے سائیں داد چانڈیو نے کہا: ’ڈیجیٹل ادائیگی کے لیے سب سے بڑا مسئلہ انٹرنیٹ کی سست رفتاری ہے۔ مویشی مندی میں ایک ساتھ بہت سے لوگ ہوتے ہیں، اس لیے انٹرنیٹ کام نہیں کرتا۔ کئی بار ایسا ہوا کہ گاہک نے رقم کی ڈیجیٹل ادائیگی کردی ان کے اکاؤنٹ سے رقم چلی گئی، مگر وہ کئی گھنٹے تک موصول نہیں ہوئی۔
’اس لیے میں ہمیشہ نقد کاروبار کرتا ہوں تاکہ آن لائن پیچیدگی سے بچ سکوں۔ نقلی نوٹ کو چیک کرنے کے لیے ہم نے نوٹ چیک کرنے والی ڈیجیٹل مشین رکھی ہے۔ اس لیے اب یہ بھی ڈر نہیں کہ کوئی نقلی نوٹ دے گا۔‘
کراچی کے ناردرن بائی پاس پر لگنے والے مویشی منڈی شہر کی بڑی مویشی منڈیوں میں سے ایک ہے۔
اس منڈی کے کوآرڈینٹر اقتدار انور کے مطابق: ’مویشی منڈی میں ڈیجیٹل ادائیگی کے لیے کئی بینکوں کی جانب سے منڈی کے اندر کنٹینر اے ٹیم ایم مشینز لگادی گئی ہیں، جہاں جانور کی خریداری کے لیے آنے والے شہریوں کی ڈیجیٹل ادائیگی کے لیے بینکوں نے عملہ بھی مقرر کیا ہے۔‘
اقتدار انور نے بتایا: ’مویشی منڈی میں مختلف بینکوں کی جانب سے لگائے گئے اے ٹی ایم پر موجود عملہ اے ٹی ایم مشین سے آن لائن رقوم کی منتقلی میں مدد کرتا ہے۔
’اس کے علاوہ ایزی پیسہ، جیز کیش سمیت مختلف ڈیجیٹل بینکوں کے ذریعے آن لائن رقم کی منتقلی کے لیے منڈی میں بڑی تعداد میں سٹائل لگائے گئے ہیں۔‘
اقتدار انور کے مطابق: ’منڈی میں مویشیوں کی خرید و فروخت کے لیے ڈیجیٹل ادائیگی ایک محفوظ طریقہ ہے۔ چند روز قبل ہماری منڈی میں جانوروں کی خریداری کے لیے کچھ لوگ آئے۔ انہوں نے چار بیلوں کا سودا کیا۔ دو لاکھ روپے ایڈوانس نقد رقم دی۔
’انہوں نے بیوپاری سے کہا کہ باقی رقم کے لیے کلفٹن چلیں، جہاں وہ بیوپاری کو شربت پلا کر بےہوش کرکے جانور لے گئے۔ اس کے بعد ہم نے بیوپاریوں کو رقم کے لیے کسی کے ساتھ منڈی سے باہر جانے سے روک دیا ہے۔ایسے تمام فراڈ سے بچنے کے لیے ڈیجیٹل ادائیگی انتہائی محفوظ ہے۔‘
’چھوٹی رقوم آن لائن ادا کی جاتی ہیں، مگر بڑی رقم کے سودے نقد کیے جاتے ہیں۔‘
نادرن بائی پاس منڈی کے ایک ترجمان نے نام نہ لکھنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’چھوٹی رقوم آن لائن ادا کی جاتی ہیں، مگر بڑی رقم کے سودے نقد کیے جاتے ہیں۔‘
بقول ترجمان: ’منڈی میں آٹھ سے 10 لاکھ روپوں والے جانور کی ادائیگی آن لائن کی جاتی ہے، مگر مہنگے جانور جو 80 لاکھ یا ایک کروڑ روپے تک کے ہیں، ان کے بیوپاری ٹیکس سے بچنے کے لیے ڈیجیٹل ادائیگی کے بجائے نقد سودے کرتے ہیں۔‘
سٹیٹ بینک کی جانب سے گذشتہ کئی سالوں سے ڈیجیٹل ادائیگیوں کے بارے میں عوامی شعور بیدار کرنے کے لیے مختلف میڈیا پلیٹ فارمز پر آگاہی مہمات چلائی گئی ہیں، جن میں ٹی وی اور سوشل میڈیا کے ذریعے آگاہی کی فراہمی شامل ہیں۔ ان مہمات کا مقصد عوام کو ڈیجیٹل ادائیگیوں کے فوائد سے آگاہ کرنا اور ان کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرنا ہے ۔
ان اقدامات کے ذریعے، سٹیٹ بینک آف پاکستان نے ملک میں ڈیجیٹل مالیاتی خدمات کو فروغ دینے اور عوام کو آن لائن ٹرانزیکشنز کی طرف راغب کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
2024 میں، سٹیٹ بینک نے 18 بینکوں کے ساتھ مل کر 50 سے زائد بڑی مویشی منڈیوں میں ڈیجیٹل ادائیگیوں کا پائلٹ منصوبہ شروع کیا۔ اس منصوبے کے تحت، چار ہزار سے زائد بیوپاریوں کو ڈیجیٹل ادائیگیوں کے لیے رجسٹر کیا گیا، اور 560 ملین روپے کی ٹرانزیکشنز کی گئیں۔
اس کے علاوہ سٹیٹ بینک کی جانب سے جنوری 2021 میں فوری ڈیجیٹل ادائیگی کے لیے ’راست پاکستان‘ معتارف کروایا گیا جو کہ افراد، کاروباروں اور حکومت کے درمیان فوری اور مفت ڈیجیٹل لین دین کی سہولت فراہم کرتا ہے۔