مئی 2025 میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان چار روزہ جھڑپ کے دوران آسمان اس وقت روشنیوں سے بھر گیا جب ڈرونز کو میزائلوں کے ذریعے فضا میں مار گرایا گیا۔ نئی دہلی کے نزدیک یہ سب کچھ ’جنگ کے نئے تصور‘ کی عکاسی تھی۔
انڈیا کو اب امید ہے کہ اس کی جنگی صلاحیتوں کے اس مظاہرے سے، جس میں مقامی طور پر تیار کردہ ’اِنویزیبل شیلڈ‘ (نظر نہ آنے والی ڈھال) میزائل دفاعی نظام بھی شامل تھا، عالمی سطح پر مانگ میں اضافہ ہو گا۔
انڈین وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے اگست میں کہا: ’یہ آپریشن جنگ کے نئے فن، ایک نئے وژن، تکنیکی پیشرفت اور خود انحصاری کی جھلک تھا۔‘
دنیا کے بڑے اسلحہ درآمد کنندگان میں شمار ہونے والا انڈیا اب خود کو ایک بڑا ہتھیار ساز اور برآمد کنندہ ملک بنانے کے لیے پرعزم ہے۔
دفاعی برآمدات 2024-25 میں ریکارڈ 2.8 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، جو اگرچہ بڑے کھلاڑیوں کے مقابلے میں کم ہیں لیکن گذشتہ برس سے 12 فیصد زیادہ اور ایک دہائی پہلے کے مقابلے میں 34 گنا زیادہ ہیں۔
ملکی دفاعی پیداوار بھی ریکارڈ 18 ارب ڈالر تک پہنچ گئی، جو پانچ برسوں میں تقریباً دوگنی ہے۔
انڈین وزارت دفاع کے مطابق، انڈیا اب 100 سے زیادہ ممالک کو دفاعی ساز و سامان برآمد کر رہا ہے، جن میں امریکہ، فرانس اور آرمینیا بڑے خریداروں میں شامل ہیں۔
برآمدات میں میزائل، کشتیاں، توپخانے، ریڈار سسٹمز، راکٹ لانچرز، سافٹ ویئر اور الیکٹرانک پرزے شامل ہیں۔
’قیمتی اسباق‘
مئی 2025 میں ہوئی یہ جھڑپ 1999 کے بعد جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان سب سے بڑی جھڑپ تھی، جس میں میزائل، ڈرون اور توپ خانے کی گولہ باری سے 70 سے زیادہ افراد مارے گئے۔
دونوں ممالک نے فتح کا دعویٰ کیا اور ایک دوسرے کے لڑاکا طیارے گرانے کا دعویٰ کیا۔
پاکستان نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے انڈین ایس 400 دفاعی نظام کو نشانہ بنایا۔
پاکستان فوج کے مطابق، جے ایف17 تھنڈر طیاروں نے ہائپرسانک میزائلوں سے آدم پور کی فوجی تنصیبات اور جالندھر کے ایئر فورس بیس کو نشانہ بنایا، اور آدم پور پر حملے میں ایس400 نظام کو تباہ کر دیا گیا۔
پاکستانی فضائیہ کے ایئر وائس مارشل شہریار احمد خان نے چھ انڈین طیارے مار گرائے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے ہفتے کو کہا کہ اگلی بار سکور 6-0 کی بجائے 60-0 ہو گا۔
انڈیای فوج کے ایک سینیئر افسر نے کہا کہ جھڑپوں نے ’ہمیں نئے ہتھیاروں کی کارکردگی کو سمجھنے کا بہترین موقع فراہم کیا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’یہ ہمارے لیے اور ہماری تیزی سے پھیلتی ہوئی دفاعی صنعت کے شراکت داروں کے لیے قیمتی اسباق تھے۔‘
ان ہتھیاروں میں سے ایک آکاش تیر (آسمانی تیر) بھی تھا، جو ایک گاڑی پر نصب فضائی دفاعی پلیٹ فارم ہے اور مصنوعی ذہانت سے چلتا ہے۔ اس نے میزائلوں اور مسلح ڈرونز کو ہوا ہی میں تباہ کر دیا۔
انڈیا نے پاکستانی فضائی اڈوں پر کئی طویل فاصلے تک مار کرنے والے براہموس کروز میزائل بھی داغے۔ یہ میزائل، جو روس کے ساتھ مل کر تیار کیے گئے ہیں اور پہلے ہی فلپائن کو برآمد کیے جا چکے ہیں، جھڑپ کے بعد مزید توجہ کا مرکز بن گئے۔
راج ناتھ سنگھ نے جولائی میں ایک فوجی فیکٹری کے افتتاح پر کہا: ’ان براہموس میزائلوں کی شاندار کارکردگی کے باعث 14 یا 15 ممالک نے ان کی فراہمی کے لیے رابطہ کیا ہے۔‘
ایشیا گروپ کے بزنس کنسلٹنسی ادارے کے اشوک ملک نے کہا کہ یہ جھڑپ ’مارکیٹ میں عملی مظاہرہ‘ ثابت ہوئی۔
ان کے بقول: ’یہ ایک بات ہے کہ میں کچھ خریدوں جو آپ نے بنایا ہے، لیکن یہ بالکل مختلف بات ہے کہ وہ چیز خریدوں جسے آپ نے بنایا اور میدانِ جنگ میں کامیابی سے استعمال بھی کیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فضائی دفاع
انڈیا کا دفاعی بجٹ گذشتہ دہائی میں دوگنا سے زیادہ ہو کر 78 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔
اسی دوران انڈیا نے روسی ہتھیاروں پر انحصار کم کرنے کی کوشش کی ہے اور امریکہ، فرانس اور اسرائیل کے ساتھ درآمدات اور پیداوار کے معاہدے کیے ہیں۔
یہ صنعت کاری کی کوشش ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب نئی دہلی واشنگٹن اور ماسکو کے ساتھ تعلقات میں توازن رکھ رہا ہے اور ساتھ ہی چین (جو پاکستان کا سب سے بڑا اسلحہ فراہم کنندہ ہے) کا مقابلہ بھی کر رہا ہے۔
یہ توازن مزید مشکل ہو گیا ہے کیونکہ واشنگٹن نے روسی تیل خریدنے کی سزا کے طور پر انڈین مصنوعات پر 50 فیصد محصولات عائد کیے ہیں۔
اسی لیے انڈیا نے ’میک اِن انڈیا‘ مہم کے تحت جنگی طیاروں کے انجن تیار کرنے اور اسرائیلی طرز کا آئرن ڈوم سسٹم بنانے کا عزم کیا ہے جسے وہ ’سدرشن چکر‘ کہتا ہے۔
انڈیا نے اپنی تیزی سے بڑھتی ہوئی ڈرون صنعت کو بھی اجاگر کیا ہے، جسے وہ 2030 تک 11 ارب ڈالر کی منڈی سمجھتا ہے۔ اس میں کئی ماڈلز شامل ہیں جو اسرائیلی کمپنیوں کے ساتھ قریبی تعاون کے ذریعے تیار کیے گئے ہیں۔
تاہم، مسائل باقی ہیں۔
انڈیا کے نائب وزیر برائے شہری ہوا بازی مرلی دھر موہل نے اپریل میں پارلیمنٹ کو بتایا کہ اہم چھوٹے ڈرون پرزوں کا 39 فیصد چین سے خریدا گیا ہے۔