سعودی عرب نے جمعے کو قطر کے خلاف اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کے ’جارحانہ‘ بیانات کی مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خطے میں اسرائیل کی ’تباہ کن پالیسیوں‘ کو ختم کرے۔
سعودی وزارت خارجہ نے بیان میں کہا کہ ’سعودی عرب برادر ریاست قطر کے خلاف اسرائیلی قابض حکومت کے وزیراعظم کے جارحانہ بیانات کی شدید مذمت کرتا ہے۔‘
نتن یاہو نے قطر پر حالیہ حملے کے بعد اپنے ایک بیان میں کہا ’قطر حماس رہنماؤں کی میزبانی کرتا ہے اور انہیں مالی امداد دیتا ہے، جبکہ مذاکرات بھی جاری رکھتا ہے۔ یہ ناقابلِ قبول ہے۔‘
انہوں نے قطر پر حملے کو 9/11 حملوں سے جوڑتے ہوئے کہا ’قطر میں حماس کے رہنماؤں کی موجودگی دہشت گردی کی سرپرستی ہے۔ اسرائیل ویسے ہی عمل کرے گا جیسے امریکہ نے 9/11 کے بعد القاعدہ کے خلاف کیا تھا۔‘
ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’قطر کو حماس کے عہدے داروں کو ملک بدر کرنا ہوگا، ورنہ اسرائیل ایسے اقدامات کرے گا جن کی ذمہ داری قطر پر ہوگی۔‘
قطر پر حالیہ اسرائیلی حملے کی سعودی عرب پہلے ہی مذمت کر چکا ہے جبکہ اس نے اب ان ’جارحانہ‘ بیانات کی بھی مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خطے میں اسرائیل کی ’تباہ کن پالیسیوں‘ کو روکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سعودی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ’مملکت اپنے برادر ملک قطر کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اعادہ کرتی ہے اور اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ اسرائیلی قابض حکام کے یہ بیانات اور جارحانہ اقدامات، بین الاقوامی قوانین و ضوابط کی سنگین اور مسلسل خلاف ورزیاں، عالمی برادری کو اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ وہ خطے میں اسرائیل کی ان تباہ کن پالیسیوں کو ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات جاری رکھے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ سعودی عرب ’اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ اسرائیلی قابض حکام کے یہ بیانات اور جارحانہ اقدامات، بین الاقوامی قوانین و ضوابط کی سنگین اور مسلسل خلاف ورزیاں، عالمی برادری کو اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ وہ خطے میں اسرائیل کی ان تباہ کن پالیسیوں کو ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات جاری رکھے۔‘
دوسری جانب آج اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے سعودی عرب اور فرانس کے پیش کردہ ’نیویارک اعلامیے‘ کی منظوری دی ہے۔
اس قرارداد کے تحت حماس کی شمولیت کے بغیر اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دو ریاستی حل کی جانب پیش رفت کی کوشش کی گئی ہے۔
قرارداد کے حق میں پاکستان سمیت 142 ووٹ آئے جبکہ اسرائیل اور امریکہ سمیت 10 ممالک نے اس کی مخالفت میں ووٹ ڈالا، 12 ارکان نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔