وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولائن لیویٹ نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ منگل، یعنی 23 ستمبر کو پاکستان سمیت کئی مسلمان ملکوں کے سربراہوں سے مشترکہ ملاقات کریں گے۔
ان ملکوں میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکی، انڈونیشیا اور دیگر شامل ہیں اور یہ ملاقاتیں نیویارک میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کے حاشیے پر ہو رہی ہیں۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے اتوار کے روز کہا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف ٹرمپ کے ساتھ ملاقات میں مسلمان ممالک کے ’منتخب‘ رہنماؤں میں شامل ہوں گے۔ دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ دونوں فریقین علاقائی اور بین الاقوامی امن و سلامتی سے متعلق امور پر تبادلۂ خیال کریں گے۔
یہ پہلا موقع ہو گا کہ شہباز شریف کسی امریکی صدر سے ملاقات کریں گے۔
یہ ملاقات ایک انتہائی اہم وقت پر ہو رہی ہے۔ ایک طرف تو غزہ میں اسرائیل کے جارحانہ عزائم میں توسیع ہو رہی ہے تو گذشتہ ہفتے قطر پر اسرائیل کے فضائی حملے کے بعد پورے خطے میں بےچینی میں اضافہ ہوا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کیرولائن لیویٹ نے پیر کو ایک پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ ’صدر بعد میں قطر، سعودی عرب، انڈونیشیا، ترکی، پاکستان، مصر، متحدہ عرب امارات اور اردن کے ساتھ ایک کثیر الجہتی اجلاس بھی کریں گے۔‘
امریکی ترجمان نے بتایا کہ ٹرمپ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریش سے بھی منگل کو ملاقات کریں گے۔
پاکستان کے وزیراعظم پیر کو جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک پہنچے جو کہ مشرق وسطیٰ، یوکرین میں بڑھتے ہوئے تنازعات اور جنوبی ایشیا کے خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان 23 سے 29 ستمبر تک ہو رہا ہے۔
پاکستانی وزیرِ اعظم شہباز شریف 27 ستمبر کو جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے۔ اسی دن انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کا بھی خطاب متوقع ہے۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں بتایا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف ’بین الاقوامی برادری سے اپیل کریں گے کہ طویل قبضے اور حقِ خود ارادیت سے محرومی کی صورت حال کو حل کیا جائے۔‘
اس کے علاوہ ’وہ بین الاقوامی برادری کی توجہ غزہ کے سنگین بحران کی جانب مبذول کرائیں گے اور فلسطینی عوام کی تکالیف کے خاتمے کے لیے فیصلہ کن اقدام پر زور دیں گے۔‘
وزارتِ خارجہ کے مطابق وہ ’وہ خطے کی سکیورٹی کی صورت حال پر پاکستان کے نقطۂ نظر کو بھی اجاگر کریں گے، نیز دیگر بین الاقوامی مسائل پر بات کریں گے، جن میں ماحولیاتی تبدیلی، دہشت گردی، اسلاموفوبیا اور پائیدار ترقی شامل ہیں۔‘