میرے عزیز پاکستانی بھائیو اور بہنو، میں آج آپ کو کسی سرکاری حیثیت میں نہیں بلکہ ایک ایسے شخص کی حیثیت سے لکھ رہا ہوں جو آپ کے درمیان نو سال سعودی عرب کے نمائندے کے طور پر خدمات انجام دیتا رہا اور جس کے دل میں ہمیشہ آپ اور آپ کی قیادت کے پیار اور عزت کی قدر موجود ہے۔
حال ہی میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان سٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدہ ہماری غیرمعمولی شراکت داری کے ایک نئے موڑ کی نشاندہی کرتا ہے۔ میرے لیے یہ لمحہ محض سفارتی سنگ میل نہیں بلکہ میرے لیے یہ اس بات کی ذاتی اور دلی گواہی ہے کہ ہمارا رشتہ مضبوط، ہمیشہ قائم رہنے والا اور مقدس ہے۔
اسلام آباد کو چھوڑے مجھے لگ بھگ ڈیڑھ دہائی بیت چکی ہے لیکن پاکستان کی یادیں آج بھی میرے دل میں اتنی ہی تازہ ہیں۔ میں آپ کی مہمان نوازی کی گرم جوش، دوستی کی گہرائی اور اس ہمت کو یاد کرتا ہوں جس کے ساتھ آپ کی قوم نے دہشت گردی، جنگ اور سانحات کے تاریک ترین وقتوں کا مقابلہ کیا۔
سعودی قیادت کی رہنمائی میں، میں 2005 کے زلزلے کے بعد آپ کے ساتھ کھڑا رہا اور آپ کے عزم کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ یہی عزم پاکستان کو لازوال بناتا ہے۔
جیسا کہ میں نے اپنے حالیہ کالم میں لکھا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان دفاعی معاہدہ ہماری دیرینہ شراکت داری کا فطری تسلسل ہے لیکن یہاں میں ذاتی طور پر پاکستانی عوام سے مخاطب ہوں تاکہ اس معاہدے کے پس منظر میں موجود انسانی رشتوں اور تاریخ کی گہرائی کو بیان کر سکوں۔
یہ دفاعی معاہدہ محض افواج، ہتھیاروں یا روک تھام کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ ہمارے مشترکہ مستقبل کے بارے میں ہے۔ یہ دہائیوں کی یکجہتی، قربانی اور مشترکہ وژن کا حاصل ہے۔ معاہدے میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ایک ملک پر ہونے والا حملہ دونوں ملکوں پر حملہ تصور ہوگا اور ہم مل کر اپنے خطے میں امن و استحکام قائم رکھیں گے۔
پاکستانی عوام کے لیے یہ اس بات کی یقین دہانی ہے کہ سعودی عرب کے بھائی آپ کو کبھی تنہا نہیں چھوڑیں گے اور سعودی عوام کے لیے یہ یاد دہانی ہے کہ پاکستان محض اتحادی نہیں بلکہ ہمارا خاندان ہے۔
ہمارے تعلقات کا یہ جذبہ ملکی قیادت سے لے کر عوام تک ہمیشہ یکساں رہا ہے۔ 1947 میں پاکستان کے قیام پر بانی مملکت شاہ عبدالعزیز نے قائداعظم محمد علی جناح کو مبارک باد کا پیغام بھیجا اور دعا کی کہ پاکستان مسلم اخوت کا مضبوط ستون بنے۔ محمد علی جناح نے اسلام کے مضبوط رشتے پر اتحاد اور دوستی کی بنیاد رکھی۔ پھر شاہ فیصل نے اسے عہد عملی شکل دی اور پاکستان کو اپنا دوسرا دفاعی مرکز قرار دیا۔ شاہ فہد، شاہ عبداللہ اور شاہ سلمان نے بھی اپنے اپنے ادوار میں پاکستان کے ساتھ ہر مشکل اور کامیابی میں یہی تعاون جاری رکھا۔
اور 2019 میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اسلام آباد میں یہ کہہ کر ہر پاکستانی کا دل چھو لیا کہ ’مجھے پاکستان کا سعودی عرب میں سفیر سمجھا جائے۔‘ یقیناً ان چند الفاظ نے کبھی ہمارے تعلقات کی روح کو اتنی خوبصورتی سے بیان نہیں کیا۔
سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کا ہر مشکل میں ساتھ دیا ہے، چاہے وہ تباہ کن زلزلے اور سیلاب ہوں یا جوہری تجربات کے بعد لگنے والی پابندیاں ہوں اور بدلے میں پاکستان نے بھی ہمیشہ مملکت کا ساتھ دیا ہے، چاہے وہ ہمارے مشترکہ مفادات کی بات ہو، مسجد الحرام و مسجد نبوی کے تحفظ کی بات ہو یا جنگ و امن کی شراکت ہو۔ حالیہ معاہدہ دراصل اسی 50 سالہ مستقل رفاقت کا تسلسل ہے۔
ہمارے تعلقات کی خاص بات یہ ہے کہ یہ سیاست سے ماورا ہیں۔ حکومتیں بدلتی ہیں، قائدین بدلتے ہیں لیکن سعودی اور پاکستانی عوام کے درمیان رشتہ کبھی نہیں بدلتا۔ ہر سال لاکھوں پاکستانی حج و عمرہ کے لیے مکہ و مدینہ کا سفر کرتے ہیں اور یہ مقدس فریضہ ہماری روحوں کو صدیوں سے جوڑے رکھتا ہے۔ لاکھوں پاکستانی دہائیوں سے مملکت میں مقیم ہیں، شہروں کو تعمیر کرتے ہیں اور ہماری خوشحالی میں شریک ہیں۔ ان کی محنت اور وفاداری نے اعتماد کا ایسا پل بنایا ہے جسے کوئی چیلنج توڑ نہیں سکتا۔
یہ معاہدہ عوامی خواہش کا بھی عکس ہے۔ ریاض میں سعودی شہری پاکستانی پرچم لہرا رہے تھے، اسلام آباد اور لاہور میں خوشی منائی گئی، سوشل میڈیا دعاؤں اور محبت کے پیغامات سے بھر گیا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ معاہدہ حقیقی طور پر عوام کی آواز ہے۔
اس تاریخی موقع پر پاکستان کی موجودہ اور سابق قیادت کو سلام پیش کرنا بنتا ہے جنہوں نے اس تعلق کو نبھایا اور پروان چڑھایا۔ آج وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر نے اسے نئی بلندیوں تک پہنچایا ہے۔ عمران خان کی حمایت اور نواز شریف کی خصوصی خدمات، جن کے دور میں پاکستان پہلی اسلامی ایٹمی طاقت بنا، بھی قابل ذکر ہیں۔ یہی اتحاد ہماری سب سے بڑی طاقت ہے۔
سعودی عرب کے لیے پاکستان کی سلامتی اور استحکام صرف پالیسی کا حصہ نہیں بلکہ ایمان کا معاملہ ہے۔ ہمیں علم ہے کہ پاکستان جتنا مضبوط ہوگا، مسلم دنیا اتنی ہی مضبوط ہوگی۔ جیسا کہ قرآن مجید میں کہا گیا: ’اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔‘ پاکستان کی تقدیر اس کی وحدت میں ہے۔ سیاسی استحکام، پالیسی کا تسلسل اور معاشی ترقی پاکستان کے روشن مستقبل کی کنجیاں ہیں۔ میری دعا ہے کہ پاکستان ترقی کرے اور خطے و امت کی خوشحالی میں کردار ادا کرے۔
یہ معاہدہ دفاعی نوعیت کا ہے لیکن یہ کسی کو دھمکانے کے لیے نہیں بلکہ امن کے تحفظ کے لیے ہے۔ یہ اس تعاون کی بنیاد پر ہے جو دہائیوں سے جاری ہے، 1960 کی دہائی میں پاکستانی افواج کے افسران نے رائل سعودی ایئرفورس کو تربیت دی، 1980 کی دہائی میں ہزاروں پاکستانی فوجی سعودی عرب میں تعینات رہے اور حالیہ دہائیوں میں انسداد دہشت گردی میں شراکت کی۔ یہ اعتماد نسل در نسل پروان چڑھا اور اب ادارہ جاتی شکل اختیار کر گیا ہے۔
اس معاہدے کی تکمیل ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی بصیرت افروز قیادت کا ثبوت ہے۔ ان کے وژن نے مملکت کو بدل دیا ہے اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کو نئی بلندی پر پہنچایا ہے۔ یہ معاہدہ دو قوموں کے درمیان غیر متزلزل اعتماد، بھائی چارے اور مشترکہ مستقبل کا مظہر ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دفاع کے ساتھ ساتھ یہ معاہدہ ترقی کا تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔ سعودی وژن 2030 صنعت، ٹیکنالوجی اور ثقافت میں نئی راہیں کھول رہا ہے۔ پاکستان اپنی نوجوان آبادی، ماہرین اور کاروباری جذبے کے ساتھ اس میں فطری شراکت دار ہے۔ توانائی، سرمایہ کاری اور افرادی قوت میں بڑھتا ہوا تعاون دونوں ممالک کو خوشحال بنائے گا۔
ہمارا رشتہ معاہدوں میں نہیں بلکہ دلوں پر لکھا ہوا ہے۔ ریاض اور اسلام آباد امن کے محافظ ہی نہیں بلکہ ترقی کے انجن بھی بن سکتے ہیں۔
سب سے بڑھ کر، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے تعلقات کی بنیاد عوام کے دلوں میں ہے۔ پاکستانی عوام سعودی عرب کو اسلام کے مقدس مقامات کی سرزمین سمجھتے ہیں۔ سعودی عوام پاکستان کو امت مسلمہ کی ڈھال مانتے ہیں۔ یہ جذبات کسی مصلحت کا نتیجہ نہیں بلکہ نسل در نسل منتقل ہونے والی حقیقت ہیں۔ اسی لیے یہ رشتہ کبھی کمزور نہیں ہوتا۔ اسی لیے یہ معاہدہ کسی جھجک کے بغیر خوشی سے قبول کیا گیا۔
میرے عزیز بھائیو اور بہنو، یہ معاہدہ کسی سفر کا اختتام نہیں بلکہ ایک نئے باب کا آغاز ہے۔ ایسا باب جس میں سعودی عرب اور پاکستان ایمان کے رشتے اور سٹریٹجک تعاون کے ساتھ مل کر مسلم دنیا کی یکجہتی کا مینار اور خطے کے امن کا ستون ہوں گے۔
یہ الفاظ میں ایک ریٹائرڈ سفارتکار اور آزاد محقق کی حیثیت سے لکھ رہا ہوں، جو صرف پاکستان اور اس کے عوام کے لیے اپنی بے پناہ محبت سے رہنمائی لیتا ہے۔ دل کی گہرائیوں سے آپ سب کا شکریہ کہ آپ نے مجھے جو محبت، وفاداری اور دعائیں دی ہیں، وہ میرے ساتھ ہمیشہ رہیں گی۔ ہمارا ماضی ہمیں جوڑتا ہے، حال ہمیں متحد کرتا ہے اور مستقبل ہمیں مشترکہ فتوحات کی طرف بلاتا ہے۔
بشکریہ عرب نیوز
ڈاکٹر علی عواض العسری 2001 سے 2009 تک سعودی عرب کے پاکستان میں سفیر رہے اور 2009 سے 2017 تک وہ لبنان میں خدمات انجام دیتے رہے۔ اس وقت وہ ریاض کے انسٹی ٹیوٹ فار ایرانین سٹڈیز کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے نائب چیئرمین ہیں۔ انہیں پاکستان کا سول ایوارڈ ہلال پاکستان، لبنان کا سٹیٹ آرڈر، سعودی عرب کے کنگ عبدالعزیز اور کنگ فیصل ایوارڈ سمیت کئی بڑے اعزازات مل چکے ہیں۔ ڈاکٹر عسری نے بیروت عرب یونیورسٹی سے اکنامکس میں پی ایچ ڈی کی ہے اور وہ کتاب "Combating Terrorism: Saudi Arabia’s Role in the War on Terror" کے مصنف بھی ہیں۔