’لاک ڈاؤن میں غیرقانونی منشیات کا استعمال‘

برطانیہ میں ایک نئے سروے کے مطابق کرونا وائرس کی وبا پھیلنے سے پہلے پانچ افراد میں سے ایک منشیات استعمال کرتا تھا لیکن وبا کے دوران  ہر دو میں سے ایک نے ان کا استعمال شروع کردیا ہے۔

منشیات استعمال کرنے والوں کے معاملے میں حالیہ مہینوں میں جو تبدیلی آئی ہے وہ ایسے لوگوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہے جو انہیں ذہنی صحت کے مسائل کے حل کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ (پکسابے)

کووڈ 19 کے بحران کے دوران بعض افراد نے صحت کی خواہش کی بجائے ضرورت کے مطابق 'اپنی مدد آپ' کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ شکر ہے کہ دانتوں کے ڈاکٹر دوبارہ کام شروع کر رہے ہیں تاکہ لوگوں کو پلاس کے ذریعے دانت کے درد سے نجات نہ حاصل کرنی پڑے، لیکن ہم گہرائی میں جا کر یہ جاننے کا عمل شروع کر رہے ہیں کہ لاک ڈاؤن کے دوران لوگ اپنی فلاح و بہبود کے دوسرے پہلوؤں خاص طور پر ذہنی صحت کے مسئلے سے کس طرح نمٹ رہے ہیں۔

اس حوالے سے معلومات ذہنی صحت کی سروسز نے فراہم نہیں کی ہیں، جنہوں نے کرونا (کورونا) وائرس کی وبا کے بعد سے مریضوں کی تعداد میں کمی ریکارڈ کی ہے بلکہ یہ معلومات منشیات کے غیرقانونی استعمال کے ایک تازہ جائزے سے حاصل ہوئی ہیں۔ اگرچہ مختلف تنظیموں نے منشیات کے استعمال کے حوالے سے چند سروے ہی کیے ہیں لیکن اس سروے میں نہ صرف پوچھا گیا ہے کہ لوگ کون سی منشیات استعمال کر رہے ہیں بلکہ اہم سوال یہ تھا وہ انہیں کیوں استعمال کر رہے ہیں؟ 

جواب دینے والوں کی اکثریت (71 فیصد) نے بتایا کہ وہ تفریح یا سکون کے لیے یہ منشیات استعمال کرتے ہیں۔ یہاں یہ یاد دہانی اہم ہے کہ زیادہ تر لوگ اب بھی تفریح کے لیے منشیات استعمال کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی بات ہے جو اکثر نظرانداز کر دی جاتی ہے کیونکہ ذرائع ابلاغ عام طور پر منشیات کی زیادتی یا منشیات کے استعمال کے کسی دوسرے نقصان دہ پہلو کی خبریں دیتے ہیں۔ اسی حقیقت کی جھلک علمی تحقیق میں بھی ملتی ہے جہاں تحقیق کے عمل کا جھکاؤ منشیات کے غلط استعمال کو بہتر طور پر سمجھنے کی طرف ہوتا ہے۔

اگر آپ کو منشیات کا کوئی تجربہ نہیں ہے تو ایسی صورت میں آپ کو یہ فرض کر لینے پر معافی مل جائے گی کہ یہ ایک ایسی سرگرمی ہے جس میں بہت زیادہ خطرہ ہے اور منشیات استعمال کرنے والے ہر لحاظ سے ذاتی نوعیت کے مسائل کا شکار ہو جائیں گے، لیکن منشیات استعمال کرنے والے زیادہ تر لوگوں کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا۔

منشیات استعمال کرنے والوں کے معاملے میں حالیہ مہینوں میں جو تبدیلی آئی ہے، وہ ایسے لوگوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہے جو انہیں ذہنی صحت کے مسائل کے حل کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کرونا وائرس کی وبا پھیلنے سے پہلے پانچ افراد میں سے ایک منشیات استعمال کرتا تھا لیکن وبا کے دوران ہر دو میں سے ایک نے ان کا استعمال شروع کردیا ہے۔ سروے کے دوران جواب دینے والوں نے ذہنی صحت کے جن مسائل کی نشاندہی کی ہے ان میں بےچینی، حقیقت سے فرار، دباؤ یا تنہائی شامل ہیں۔ یہ بات قابلِ فہم ہے کہ مستقبل کے غیریقینی حالات کے ساتھ ساتھ بعض افراد مالی، تعلقات کے مسائل، خود اعتمادی اور مزاج کے مسائل سے بھی دوچار ہوں گے۔

یہ وہ مسائل ہیں، جنہیں ذہنی صحت کی سروسزکو حل کرنا ہے لیکن کووڈ 19 کے دوران ان سروسز نے پسپائی اختیار کی اور صرف اُن افراد کو ترجیح دی جا رہی ہے جو بہت زیادہ بیمار ہیں۔ دوسرے تمام افراد کو اُن کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

ان لوگوں کو کوئی اندازہ نہیں تھا کہ انہیں ذہنی صحت کے مسائل پر قابو پانے میں کب مدد ملے یا کبھی ملے گی بھی یا نہیں، تو ان میں سے کچھ نے ناگزیر طور پر منشیات کا استعمال شروع کر دیا۔

ابتدا میں یہ لاپروائی یا احمقانہ طور پر خطرہ مول لینے کا عمل دکھائی دیتا ہے پر یہ ویسا نہیں ہے۔ بعض منشیات ایسی علامات کو کم کرتی ہیں جن کا لوگوں کو سامنا ہوتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ یہ ہر کسی کو سکون دیں گی۔ دوا کی صحیح مقدار کا تعین کرنا مشکل ہو سکتا ہے تاکہ اس کے دوسرے مضر اثرات کا خطرہ پیدا نہ ہو جیسے کہ سانس بند ہو جانا۔

ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ کئی منشیات پر جسمانی یا نفسیاتی طور پر انحصار کی عادت بنتے زیادہ دیر نہیں لگتی جس سے ذہنی صحت کے وہ مسائل بڑھ جاتے ہیں جنہیں یہ لوگ حل کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ 

اگر انہیں علم ہے اور وہ ذہنی صحت کے مسائل کی وجہ سے منشیات پر انحصار کی عادت بن جانے کا اعتراف کرتے ہیں لیکن انحصار کا یہ مسئلہ حل کرنے کے معاملے پر ان کی ذہنی اور جسمانی صلاحیت آسانی سے سمجھوتہ نہیں کر سکتی ہے۔ منشیات کا استعمال چھوڑنے کی صورت میں بےچینی، نیند میں خلل، افسردگی اور گھبراہٹ کے مسائل کا سامنا ہوگا۔ یہ وہی علامات ہیں جنہیں ختم کرنے کے لیے انہوں نے منشیات کا استعمال شروع کیا۔

مجھے ڈر ہے کہ تھوڑی تعداد میں وہ لوگ جنہوں نے منشیات پر انحصار کرنا شروع  کردیا ہے ان کا مستقبل تاریک ہے اور پابندیوں کے خاتمے کے بعد انہیں کوئی پیشہ ورانہ مدد مل سکے گی، خام خیالی ہی ہے۔ برطانیہ کے قرضے میں اضافہ ہو رہا ہے اور ذہنی صحت کی سروسز کی خدمات صرف ان افراد کو ترجیح دیتی رہیں گی جن کی دماغی بیماری بحرانی نوعیت کی ہے۔ ایسا ہونے کی وجہ قومی خزانے پر دباؤ اور بجٹ میں کٹوتیاں ہیں۔ 

ان لوگوں میں سے انہیں بروقت مدد مل جائے گی جن کے بارے میں سمجھا جائے گا کہ وہ معاشرے کے بڑے حصے کے لیے خطرہ ہیں حالانکہ ذہنی بیماری کی صورت میں سب سے زیادہ خطرہ دوسروں کو نقصان پہنچانے کی بجائے خود کو نقصان پہنچانے یا خود کشی کا ہوتا ہے۔

کووڈ 19 کے دوران جس انداز میں ذہنی صحت کی خدمات فراہم کی جا رہی ہیں، وہ غیرمعمولی کی بجائے ایک نیا معمول بن جائے گا۔ ہم انتہائی بیمار افراد کو چھوڑ کر باقی سب کے لیے ریاستی خدمات کو سکڑتا دیکھ رہے ہیں۔

اس نئی دنیا میں غیرقانونی منشیات سے اپنے طور پر علاج ہی وہ واحد راستہ ہو سکتا ہے جو بہت سے لوگوں کے لیے کھلا ہو گا۔ آخرکار ادویات تک رسائی آسان ہے اور ان سے فوری سکون ملتا ہے، بالکل اس کے برعکس جو ذہنی صحت کا سرکاری شعبہ فراہم کرتا ہے۔ 


مصنف ایئن ہیملٹن برطانیہ کی یونیورسٹی آف یارک میں لیکچرر ہیں۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی صحت