اگر وزیر اعلیٰ پنجاب کو ہٹایا گیا تو وفاق میں بھی تبدیلی آئے گی؟

ایک طرف وفاق میں ’مائنس ون‘ کی خبریں گرم ہیں تو دوسری جانب پنجاب میں عثمان بزدار کو ہٹا کر نیا وزیراعلیٰ لانے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب کے جنوبی پنجاب سے تعلق نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی انہیں عہدے پر قائم رکھنے کا تاثر مضبوط کر رکھا ہے (حکومت پنجاب/ فیس بک)

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ان دنوں ایک بار پھر سیاسی میدان میں تبدیلی کی آوازوں میں شدت دکھائی دے رہی ہے۔

ایک طرف وفاق میں ’مائنس ون‘ کی خبریں گرم ہیں تو دوسری جانب پنجاب میں عثمان بزدار کو ہٹا کر نیا وزیراعلیٰ لانے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔

لیکن حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں اور تجزیہ کاروں نے پنجاب میں تبدیلی کو وفاق سے مشروط قرار دیا ہے، جن کا کہنا ہے کہ اگر پنجاب میں تبدیلی آئی تو وفاقی حکومت کمزور ہو جائے گی۔

دوسری جانب پنجاب میں نہ اپوزیشن عثمان بزدار کو ہٹانے میں دلچسپی رکھتی ہے، نہ اتحادی اور نہ ہی پارٹی اراکین اپنے علاوہ ان کی جگہ کسی اور کے خواہش مند ہیں۔

وزیر اعلیٰ پنجاب کے جنوبی پنجاب سے تعلق نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی انہیں عہدے پر قائم رکھنے کا تاثر مضبوط کر رکھا ہے۔

ایسے حالات میں جب کرونا (کورونا) وائرس کی وبا کا دور ہے، حکمران جماعت ایوان میں اپوزیشن کے مقابلے میں تھوڑی نشستوں کی برتری رکھتی ہے۔ ملک کے سب سے اہم صوبے میں تبدیلی فوری مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔

پنجاب میں تبدیلی مشکل کیوں ہے؟

جب سے موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے اور وزیر اعظم عمران خان نے اہم ترین صوبے میں غیر متوقع طور پر جنوبی پنجاب کی غیر معروف شخصیت عثمان بزدار کو وزارت اعلیٰ کے منصب پر نامزد کیا، اسی وقت سے پی ٹی آئی سمیت پنجاب کی دیگر سیاسی جماعتیں بھی ان سے زیادہ خوش دکھائی نہیں دیں۔

یہ بات بھی درست ہے کہ شروع ہی سے ان کے جانے کی خبریں گردش کرتی رہیں لیکن انہوں نے اتحادی جماعت مسلم لیگ ق، جنوبی پنجاب کے اراکین اسمبلی اور کابینہ اراکین سے بہتر تعلقات کی بنیاد پر اس تاثر کو زائل کیا اور کئی بار بیوروکریسی میں اکھاڑ پچھاڑ بھی کر چکے ہیں۔

ایک مرتبہ پھر ان کی تبدیلی کی باتیں کی جا رہی ہیں اور متبادل نام بھی زیر گردش ہیں۔ لیکن پنجاب اسمبلی پریس گیلری کمیٹی کے سابق صدر میاں اسلم ان خبروں کی تردید کرتے ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں وزیر اعلیٰ کی کارکردگی سے چاہے کوئی خوش نہ ہو لیکن حالات نے انہیں مضبوط بنا رکھا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میاں اسلم کا کہنا تھا: ’ایک طرف ان کی کمزور سیاسی شخصیت اپوزیشن کے لیے بہتر ہے دوسری جانب اتحادی مسلم لیگ ق بھی ان کی تابعداری پر خوش ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ اراکین بھی اپنے مسائل حل ہونے پر مطمئن ہیں۔ دوسرا مسئلہ جو حکمران جماعت کو درپیش ہے وہ یہ کہ کبھی بھی کسی صوبائی رہنما سے وزیر اعلیٰ کی تبدیلی سے متعلق بات کی جائے تو وہ کہتے ہیں انہیں لگا دیا جائے اور اگر کسی اور کو نامزد کرنا ہے تو پھر عثمان بزدار بہترین ہیں۔

ان کے خیال میں عثمان بزدار سب کے ساتھ بہتر تعلقات قائم رکھتے ہیں، اس لیے ان کی مخالفت کوئی نہیں کرتا۔

اس حوالے سے پی ٹی آئی سینٹرل پنجاب کے صدر اعجاز چوہدری انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پنجاب میں عثمان بزدار کی بجائے کسی کو بھی وزیر اعلیٰ بنا دیا جائے لیکن اصل معاملہ مسائل حل کر کے عوام کو ریلیف کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے میں بیوروکریسی پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ چلنا ہی نہیں چاہتی، ابھی تک ان کی وفاداریاں مسلم لیگ ن کے ساتھ ہیں۔

اعجاز چوہدری نے مزید کہا کہ پارٹی کارکنوں کو بھی بہت شکایات ہیں کہ بیوروکریسی موجودہ حکومت کی کامیابی میں بڑی رکاوٹ ہے۔ کئی بار اکھاڑ پچھاڑ سے بھی مسائل حل نہیں ہوئے۔

کیا پنجاب سے تبدیلی کا راستہ اسلام آباد جاتا ہے؟

سینیئر سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی نے انڈپینڈنٹ اردوسے بات کرتے ہوئے اس تاثر کو مسترد کردیا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عثمان بزدار کو پارٹی میں اختلاف رائے کے باوجود وزیر اعظم عمران خان نے خود نامزد کیا اور انہیں ابتدا سے ہی بنی گالہ سے چلایا جا رہا ہے۔

سلمان غنی نے کہا: ’اتنا تابعدار وزیر اعلیٰ پارٹی قیادت کو مل ہی نہیں سکتا تھا۔ اسی طرح پنجاب ملک کا سیاسی، معاشی اور انتظامی لحاظ سے اہم ترین صوبہ ہے، یہاں جب بھی تبدیلی آئی اس سے وفاق میں تبدیلی کی راہ ہموار ہوئی۔‘

ان کے خیال میں حکومتوں کی تبدیلی کا راستہ لاہور سے سیدھا اسلام آباد جاتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا: ’اگر عثمان بزدار کو ناکامی کی وجہ سے ہٹایا جاتا ہے تو یہ ناکامی تو ان کی ہوگی جنہوں نے انہیں نامزد کیا تھا۔‘

سلمان غنی کے مطابق پنجاب میں اپوزیشن بھی ان کو ہٹانا نہیں چاہتی کیونکہ شہباز شریف انہیں اپنی انشورنس سمجھتے ہیں۔ وہ اس لیے کہ عثمان بزدار خود ثابت کر رہے ہیں کہ پنجاب کے لیے بہترین وزیر اعلیٰ شہباز شریف ہی ہوسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب میں موجودہ سیٹ اپ برقرار رکھنے کی مجبوری کا اندازہ یہاں سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کچھ عرصہ پہلے وزیر اعظم عمران خان نے خود پنجاب میں وفاقی سیکرٹری اعظم سلمان کو چیف سیکرٹری اور شعیب دستگیر کو آئی جی پنجاب لگا کر مکمل بااختیار کرنے کا اعلان کیا تھا۔

سلمان غنی کے مطابق: ’لیکن کچھ عرصہ بعد ہی وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی شکایت پر اعظم سلمان کو اچانک ہی عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ دوسری جانب سیاسی حقائق یہ ہیں کہ اگر انہیں تبدیل کیا گیا تو اگلا وزیر اعلیٰ اپوزیشن کا ہو گا۔‘

اس کی وجہ سلمان غنی نے کچھ یوں بیان کی کہ پی ٹی آئی کے کئی اراکین اور ق لیگ شاید دوبارہ پی ٹی آئی کے وزارت اعلیٰ کی نشست پر امیدوار کی حمایت نہ کرے۔

انہوں نے کہا کہ ’جب بھی عثمان بزدار کو ہٹایا گیا سمجھ لیں وزیر اعظم بھی تبدیل ہو رہے ہیں۔‘

پنجاب حکومت کی تردید

دوسری جانب ترجمان پنجاب حکومت مسرت جمشید چیمہ نے پنجاب میں سیاسی تبدیلی کو افواہ  قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ ایسے حالات میں جب حکومت کرونا وبا سے نمٹ رہی ہے، دیگر معاشی مسائل چیلنج بن کر سامنے کھڑے ہیں کیسے ممکن ہے کہ سب سے اہم صوبے میں سیاسی محاذ کھول دیا جائے۔

ان کا کہنا تھا: ’پارٹی میں ایسی کوئی تبدیلی زیر غور نہیں، نہ ہی پارٹی قیادت کا وزیر اعلیٰ پنجاب پر اعتماد کم ہوا ہے۔ وہ معمول کے مطابق اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں اور دیتے رہیں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ ابتدا سے ہی اس قسم کی خبریں پھیلائی جاتی ہیں تاکہ ان کو سیاسی طور پر دباؤ میں لایا جائے لیکن عثمان بزدار پارٹی منشور اور گائیڈ لائنز کے مطابق اپنا کام کر رہے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست