پہلا نقصان ہی پورا نہیں ہوا اور اچانک تیسرا لاک ڈاؤن لگ گیا، تاجر

پنجاب کے تاجروں کا کہنا ہے کہ 'اب عید کا وقت تھا حکومت نے اگر لاک ڈاؤن کرنا تھا تو کم از کم ہمیں اعتماد میں تو لیتے۔'

لاہور میں  لاک ڈاؤن کے دوران ایک بند مارکیٹ  میں دکانوں کے باہر مزدور بیٹھے ہیں  (تصویر: اے ایف پی)

عید سر پر کھڑی ہے اور حکومت پنجاب نے اچانک 27 جولائی کو رات 12 بجے سے صوبے بھر میں ایک مرتبہ پھر لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا، جس کے تحت مالز اور شاپنگ سینٹرز 28 جولائی سے 5 اگست تک بند رہیں گے۔

یہ لاک ڈاؤن ریٹیلرز خاص طور پر کپڑوں اور جوتوں کے کاروبار کرنے والے تاجروں پر کسی بم کی طرح گرا، نتیجتاً 27 جولائی کو وقت کم اور مقابلہ سخت والی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے  پنجاب کے بڑے شہروں کی سڑکوں پر ایسا ٹریفک جام ہوا کہ شاپنگ کے لیے کوئی کیا پہنچتا، گھر  واپسی ہی مشکل ہو کر رہ گئی۔ 

لاہور کی لبرٹی مارکیٹ جہاں عید سے قبل تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی اور دن رات شاپنگ چلتی ہے وہ اس وقت ویران پڑی ہے۔ تمام دکانوں کے شٹر بند ہیں جبکہ دکاندار مایوس ہو کر رہ گئے ہیں۔

لبرٹی مارکیٹ کے صدر سہیل منج نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: 'پہلے ہم نے دو ماہ کا لاک ڈاؤن بھگتا، اس کے بعد 15 دن کا ایک سمارٹ لاک ڈاؤن اور اب یہ تیسرا لاک ڈاؤن ہے۔ جب لاک ڈاؤن ختم ہوا تو ہم تو دکانوں کے کرائے اور لین دین کے دیگر مسئلوں میں الجھے رہے۔ اب عید کا وقت تھا حکومت نے اگر لاک ڈاؤن کرنا تھا تو کم از کم ہمیں اعتماد میں تو لیتے۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'دکانداروں اور تاجروں نے عید کے حساب سے سٹاک اکٹھا کیا، عید سے قبل چار پانچ دن میں سٹاف کی تنخواہیں دینی ہوتی ہیں، جن سے مال لیا ہوتا ہے ان کے پیسے دینے ہوتے ہیں اور سو قسم کا لین دین کرنا ہوتا ہے مگر ہمارا تو سارا سسٹم ہی خراب ہو گیا اور یہ بات میں اسی بندے کو سمجھا سکتا ہوں جس نے کاروبار کیا ہو۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے اس حکومت کو یہ تک معلوم نہیں کہ کما کر کھانا کیسا ہوتا ہے؟ ابھی تو ہم پچھلے لاک ڈاؤن کے نقصان سے نکلے نہیں تھے کہ اب تیسرا لاک ڈاؤن لگا دیا۔'

سہیل منج نے بتایا کہ عید کے ان چار پانچ دنوں میں دکانیں بند ہونے کے سبب لاکھوں کروڑوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑے گا جبکہ پچھلے لاک ڈاؤن کے دوران کئی دکانیں مستقل بند ہو گئی ہیں۔ 'اس وقت لبرٹی مارکیٹ میں پانچ ہزار سے زیادہ دکانیں ہیں اور اس تیسرے لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہم نہیں جانتے کہ چھوٹے دکاندار کس طرح اپنے کاروبار کو قائم  رکھ پائیں گے؟'

ان کا مزید کہنا تھا کہ جن تاجروں کے پاس وسائل تھے انہوں نے تو ٹیکنیکل سٹاف رکھ کر اپنا بزنس آن لائن منتقل کیا اور ان کو اس کا فائدہ بھی ہوا مگر جو چھوٹے کاروباری حضرات ہیں، جن کے وسائل اتنے نہیں وہ آن لائن کیسے جائیں گے؟

مردوں کے ملبوسات کے برانڈ 'رائل ٹیگ' کے مالک اور چین سٹور ایسوسی ایشن پاکستان (کیپ) کے چئیرمین رانا طارق نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا: 'ریٹیل کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو صوبہ پنجاب 60 فیصد ریوینیو پیدا کرتا ہے اور اس لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہ ریوینیو اثر انداز ہوا ہے۔ یہ وہ وقت ہے جس میں عید کے سٹاک کے ساتھ ساتھ دکانداروں نے موسمی ملبوسات بھی فروخت کرکے سٹاک ختم کرنا ہوتا ہے، مگر اب یہ ممکن نہیں ہو سکے گا۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ اچانک لاک ڈاؤن کی وجہ سے کاروبار بند ہوگیا۔ دکان مالکان نے اپنے ملازمین کو تنخواہیں آخری دنوں میں دینی ہوتی ہیں، وہ بھی اس منافع سے، جو وہ عید کے دنوں میں کماتے ہیں۔ یہ ادائیگیاں اب ایک چیلنج بن گئی ہیں۔

رانا طارق کہتے ہیں کہ 'حکومت کا یہ فیصلہ انتہائی غیر حقیقی ہے کیونکہ جب کرونا کی وبا پھیل رہی تھی تو تمام ٹریڈ باڈیز حکومت کے فیصلوں پر ان کے ساتھ تعاون کرتی رہیں مگر اس لاک ڈاؤن کی سب نے اجتماعی طور پر مخالفت کی، جس کا مطلب ہے کہ اس لاک ڈاؤن کا نہ اخلاقی اور نہ ہی اس وبا کے حوالے سے کوئی جواز تھا۔'

بچوں کے ملبوسات بنانے والے مشہور برانڈ 'ہاپ سکاچ' کی مالک رومانہ  عبداللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'بقر عید پر جن لوگوں کو کپڑوں وغیرہ کی خریداری کرنی ہوتی ہے وہ عید سے سات یا دس دن پہلے شاپنگ کرتے ہیں جبکہ لاک ڈاؤن کے یہ جو چار سے پانچ دن ہیں، یہ وہ دن ہیں جس میں کافی ریوینیو پیدا ہوتا ہے۔ ہمیں کم از کم معلوم ہوتا تو ہم پہلے سے اس چیز کے لیے تیار رہتے اور مختلف پلیٹ فارمز اور میڈیا کو استعمال کرکے اپنے گاہکوں کو خریداری کے لیے پہلے ہی اپنی دکانوں پر لے آتے۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بقول رومانہ: 'پیر کو جب اعلان ہوا تو اس دن گاہکوں کا رش دیکھنے میں آیا لیکن یقیناً آپ پانچ دن کی سیل چند گھنٹوں میں نہیں کر سکتے۔ دوسری جانب ہم جیسے برانڈز جو ایس او پیز پر عمل کر رہے تھے وہ دکان میں رش کی اجازت نہیں دے سکتے تھے تو بس ایک دن میں جتنا فروخت کرسکے، کردیا۔'

دوسری جانب فیشن ڈیزائنر زارا شاہ جہان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ انہیں اس لاک ڈاؤن کا فائدہ ہوا ہے اور وہ اس طرح کہ ان کا کاروبار پہلے سے ہی آن لائن تھا اور دکانیں بند ہونے کی وجہ سے آن لائن خریداری بڑھ گئی، جس کا انہیں فائدہ ہوا۔ لیکن وہ یہ بھی مانتی ہیں کہ ملکی معاشی صورت حال بگڑنے سے آن لائن کاروبار بھی متاثر ہوتا ہے ۔

بقول زارا: 'لوگوں کے پاس بجٹ ہی نہیں ہے کہ وہ خریداری کر سکیں۔ اس کے علاوہ وہ سٹورز جن کے پاس سٹاک میں مال پڑا ہوا ہے وہ اب اسے آن لائن بھی فروخت نہیں کر پائیں گے کیونکہ اصولاً آن لائن ڈیلیوری ویسے ہی 10 سے 15 دن پہلے ختم کردی جاتی ہے۔ ہم لوگ اس چیز کے لیے تیار تھے لیکن ابھی بھی حکومت نے پورا لاک ڈاؤن نہیں کیا۔ فیکٹریاں کھلی ہیں، پروڈکشنز ہو رہی ہیں، بس دکانیں، ریٹیل اور سٹور بند ہیں۔'

ساتھ ہی انہوں نے کہا: 'میرے خیال میں یہ بھی ضروری ہے کیونکہ پچھلی عید پر لاک ڈاؤن کھولنے کا جو نتیجہ ہم نے دیکھا وہ بہت برا تھا اس لیے ہمیں امید تھی کہ اس بار لاک ڈاؤن ہوگا۔' 

زارا کا کہنا ہے کہ ان کے برانڈ کے اَن سلے کپڑے زیادہ تر سٹورز پر بکتے ہیں جن کی خریداری اثر انداز ہوئی، اسی لیے انہوں نے  اپنا زیادہ سٹاک آن لائن ہی فروخت کیا ہے۔ 'ہم فوکس بھی آن لائن پر زیادہ کر رہے ہیں ، ہمارے تو دو ہی سٹورز ہیں۔ ایک لاہور میں اور دوسرا کراچی میں۔ ہمارے کراچی کے سٹور کی سیلز لاک ڈاؤن کے دوران 80 فیصد گری ہیں، لیکن وہ لوگ جنہوں نے 40 سے 50  سٹورز کے کرائے دینے ہیں، تنخواہیں دینی ہیں اور دیگر اخراجات، انہیں یقیناً لاک ڈاؤن کا بہت زیادہ نقصان ہوا ہوگا۔'

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت