باہر بارش ہو رہی ہے۔ اتنی زیادہ اور مسلسل ہو رہی ہے کہ میرے مکان کے سامنے تالاب بن گیا ہے۔ یہ ایسا علاقہ ہے جہاں پچھلے سات برس کے دوران میں نے کبھی اتنا پانی کھڑا نہیں دیکھا۔ مجھے کراچی والوں کا درد اور چترال کے رہائشیوں کی بے بسی سمجھ میں آ رہی ہے، میری نظروں کے سامنے وہ تصویریں اور ویڈیوز گھومنے لگی ہیں جو مجھے سینکڑوں کی تعداد میں روز نظر آتی ہیں۔
امریکہ میں ایک نہتے سیاہ فام کو الف ننگا کر کے پولیس والے اس کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ وہ اس کے منہ پر تھیلا چڑھا کے اسے فٹ پاتھ پر رگیدتے ہیں، دم گھٹنے سے دو منٹ بعد ہی وہ بے ہوش ہوتا ہے اور اس کے ایک ہفتے بعد ڈینئیل پروڈ نامی اس شخص کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ مارچ میں ہونے والی یہ موت بالکل گمنام رہتی ہے جب ایک دم پچھلے بدھ کو اس کے گھر والے پریس کانفرنس میں پولیس تشدد کی ویڈیو دکھاتے ہیں۔ جارج فلائید کے بعد امریکی تاریخ کا ایک اہم ترین سانحہ بن کر یہ کیس سامنے آتا ہے۔
کشمیر میں ایک بے قصور شہری کو گاڑی سے باہر گھسیٹ کر اسے گولیاں ماری جا رہی ہیں، بعد میں اس کے نواسے کی تصویریں وائرل ہو جاتی ہیں جو اپنے نانا کی لاش پر بیٹھا ہے اور رو رہا ہے، اسے نانا کے ساتھ سکول جانا ہے۔
مجھے سرفراز شاہ یاد آتا ہے جو رینجرز اہلکاروں کے سامنے ہاتھ جوڑتا رہا لیکن اسے سنگ دلی سے گولیاں مار دی گئیں۔ جیسے یہ ویڈیو میں نے دیکھی، اس کے ماں باپ نے بھی دیکھی ہو گی۔ مجھے حیات بلوچ کا خیال آتا ہے جسے ابھی حال ہی میں ایف سی اہلکار نے آٹھ گولیاں مار کے قتل کیا، اس کا بھی قصور اتنا تھا کہ وہ خاموش اکثریت تھا۔
مجھے افغانستان میں حکومت بے بس اور طالبان امریکی شہہ پر ان کے سروں پہ ناچتے دکھائی دے رہے ہیں۔ عام شہریوں میں بالخصوص عورتوں کی ایک بڑی تعداد اس خوف میں ہے کہ اب ہمارا کیا بنے گا، کیا ہم دوبارہ قرون وسطی والے حالات میں دھکیل دیے جائیں گے؟
مجھے یہ سب خیالات کیوں آ رہے ہیں؟
اس لیے کہ میں ایک جمہوریہ میں خاموش اکثریت کا حصہ ہوں۔ میں امریکہ، بھارت، افغانستان یا پاکستان میں رہنے والے عام شہریوں کے جیسا ہوں۔
میں سر اٹھا کے دیکھتا ہوں تو مجھے ایک پارٹی پاپا جونز پیزے پہ طوفان اٹھاتی دکھائی دیتی ہے، ایک میاں صاحب کو واپس لانے پر اصرار کرتی نظر آتی ہے، ایک کہتی ہے سندھ میں پیپلز پارٹی نے کچھ نہیں کیا۔ امریکہ میں ٹرمپ مسلسل اپنے ملک کو ’گریٹ اگین‘ بنانے کی آگ میں جھونک رہا ہے، مودی ہندو توا سے نیچے نہیں اتر رہے، اشرف غنی ڈیڑھ بالشت کی بہادر شاہ ظفر ٹائپ سلطنت بچانے کے لیے کمپنی بہادر کے ہاتھ ناکوں چنے چبا رہے ہیں، تو میں سر کو دوبارہ جھکا لیتا ہوں۔
مجھے اپنے مسئلوں کا حل دنیا بھر میں کہیں نظر نہیں آتا۔ میرے ساتھ ایسا ہوتا اس لیے ہے چونکہ انٹرنیٹ نے دنیا کو میرے سامنے ننگا کر دیا ہے۔ کراچی کا پانی ہو، چترال کے سیلاب ہوں، ڈینئیل پروڈ کا واقعہ ہو، کشمیری بچے کی وہ روتی ہوئی تصویر ہو، سرفراز شاہ ہو، حیات بلوچ کا نوعمر چہرہ ہو یا طالبان قیدیوں کی رہائی کے منظر ہوں، میں ان سب چیزوں سے مسلسل ایک تعلق محسوس کرتا ہوں چونکہ یہ سب میری وال پہ بکھرا ہوا ہے۔ میں بار بار یہی سب کچھ دیکھ رہا ہوتا ہوں۔
لیکن اسی سوشل میڈیا پر مجھے ان سمیت اپنے دیگر ذاتی مائیکرو قسم کے مسئلوں کا حل بھی کہیں دکھائی نہیں دیتا۔
میں سکولوں کا نصاب بدلنے کے نعرے سنتا ہوں لیکن مجھ میں جرات نہیں کہ اپنی اولاد کو آج بھی سرکاری سکول میں داخل کروا سکوں۔
میں صاف پانی کے پلانٹ لگتے دیکھتا ہوں لیکن میرے گھر میں پینے کا صاف پانی آج تک نہیں آیا۔
خدا نہ کرے کوئی بیماری دیکھنی پڑے تو آخری حد تک سرکاری ہسپتال سے بھاگتا ہوں، بارشیں زیادہ ہو جائیں تو چھت ٹپکنے کا خوف رہتا ہے، کم ہوں تو نہ بجلی ہوتی ہے نہ فصل، سوئی گیس کنکشن کے لیے پانچ پانچ سال کا انتظار بھی کم ہوتا ہے، ڈاک خانوں سے میں دو روپے کی چیز نہیں بھیجتا، مجھے وہی چیز دو سو روپے میں پرائیویٹ کورئیر سے بھیجنی پڑتی ہے، کبھی کوئی کیس عدالت میں چلا جائے تو دادا کی جیت کا پروانہ میں وصول کرتا ہوں، میں اعلی ترین رہائشی علاقے میں رہتے ہوئے بھی احتجاج کا حق نہیں رکھتا، مجھ پہ ایف آئی آریں کاٹی جاتی ہیں۔
میں خاموشی سے چینی کا ریٹ بڑھتے دیکھتا ہوں، پیٹرول، آٹا، روٹی، پھل، سبزی ہر چیز میری اوقات سے باہر ہوتی جاتی ہے اور مجھے ایک ٹکے کا اختیار نظر نہیں آتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کیا میری حالت پہ کبھی کسی پارٹی نے سروے کیا؟ کیا الیکشن کے بعد کوئی میری دہلیز تک آیا؟ پرائم ٹائم کے ٹاک شوز میں کبھی میرے مسئلے حل ہوئے؟ کیا حکومت کے پاس کوئی اعداد و شمار ہیں کہ رینگنے والی یہ مخلوق کن مسئلوں میں گرفتار ہے؟
کیا وجہ ہے کہ ساحل فاؤنڈیشن کی رپورٹ مجھے میرے ہی بچوں سے ہونے والی ہراسانی کی خبر دیتی ہے، آئی سی آر سی مجھے ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کی حالت بتاتی ہے، ایمنیسٹی انٹرنیشنل بیان دے تو پتہ لگتا ہے کوئی چکا گیا ہے، عمر اصغر فاؤنڈیشن دکھائے تو نظر آتا ہے کہ خیبرپختونخوا میں سب سے بڑا مسئلہ بچوں کی سکولنگ ہے، عورت فاؤنڈیشن بتائے تو سامنے آتا ہے کہ کتنی عورتوں کے چہرے تیزاب سے بگاڑ دیے گئے، سوال یہ ہے کہ میری حکومت کن آنیوں جانیوں میں لگی ہوئی ہے؟
مجھے جمہوریت کا کوئی اور ورژن چاہیے۔ ٹرمپ کی جمہوریت، مودی کی جمہوریت، اشرف غنی کی جمہوریت، عمران خان کی جمہوریت ۔۔۔ میرا پیٹ بھر گیا ان جمہوریتوں سے۔
ابھی کل ایک مہربان نے کہا کہ بھائی تم سیاسی کالم نہ لکھا کرو۔ مسئلہ یہ ہے کہ اسی جمہوری نظام کے تحت میں بطور ایک لکھاری اس کا چھوٹا سا حصہ ہوں لیکن میں جب بھی لکھوں گا، میرے اختیار میں اتنا ہے کہ میں بس اسی نظام پہ گند اچھال سکوں۔
میں چاہے بھارت میں رہوں، افغانستان میں رہوں، امریکہ میں رہوں یا ادھر پاکستان میں، جن حرکتوں سے میری 'آئیڈیل جمہوریت' آلودہ ہوتی ہے میں ان کے خلاف کچھ بھی نہیں لکھ سکتا، نہ ہی عملی طور پہ کچھ کر سکتا ہوں۔ تو سوال یہ ہے کہ بھائی، میں کہاں جاؤں؟ میں چاٹوں اس جمہوریت کو بیٹھ کے؟
جمہوریت کا تصور 508 بی سی میں بھی ملتا ہے اور آج 2020 میں بھی انہی پابندیوں سے اس کے پر جلتے ہیں جن میں یہ ڈھائی ہزار سال سے گھری ہوئی ہے۔
دنیا کو اس وقت جمہوری نظام میں شدید ترامیم کی ضرورت ہے۔ کچھ بھی ایسا جو گلوبل ولیج کے باخبر شہریوں اور صحافیوں کو بے بس ہونے کا احساس نہ دلائے۔
جب تک ایسا نہیں ہوتا تب تک ٹرمپ، مودی، اشرف غنی، عمران خان، ان سب کی جگہ کوئی بھی اور آتا رہے گا، پیچھے موجود ہاتھ نہیں بدلیں گے، میرے بنیادی انسانی حقوق وہیں پھنسے رہیں گے جہاں اب ہیں۔