کریمہ بلوچ کی موت کیسے ہوئی، خاندان بھی پریشان

سیاسی کارکن اور بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی سابق چیئرپرسن کریمہ بلوچ کی لاش کینیڈا کے شہر ٹورنٹو سے برآمد ہوئی ہے، وہ 20 دسمبر سے لاپتہ تھیں۔

37 سالہ کریمہ بلوچ کا تعلق بلوچستان کے ضلع کیچ (پرانا نام ضلع تربت) کی تحصیل تمپ سے تھا۔ (تصویر: ٹوئٹر)

بلوچ سیاسی کارکن اور بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی سابق چیئرپرسن کریمہ بلوچ کی لاش کینیڈا کے شہر ٹورنٹو سے برآمد ہوئی ہے، جس کی تصدیق ان کے قریبی ساتھی اور ٹورنٹو میں ہی مقیم سرگرم کارکن جوہر لطیف بلوچ نے ٹوئٹر پر کی۔ وہ 20 دسمبر سے لاپتہ تھیں۔

ٹورنٹو پولیس نے 21 دسمبر کو کریمہ بلوچ کی گمشدگی کے حوالے سے ٹویٹ کی تھی جبکہ بعدازاں اسی ٹویٹ کے سلسلے میں بتایا گیا کہ 'ان کا پتہ لگایا جاچکا ہے' (She has been located)۔

37 سالہ کریمہ بلوچ کا تعلق بلوچستان کے ضلع کیچ (پرانا نام ضلع تربت) کی تحصیل تمپ سے تھا۔ 

ٹورنٹو سے بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آزاد) کے رہنما لطیف جوہر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مقامی پولیس کو کریمہ بلوچ کی لاش ٹورنٹو شہر کے قریب ایک چھوٹے سے جزیرے کے پاس پانی میں ڈوبی ہوئی ملی۔ 
لطیف جوہر کے مطابق: 'تاحال یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ کریمہ بلوچ کی ہلاکت کس طرح ہوئی ہے۔ پولیس نے کریمہ کے خاندان والوں کو تاحال یہ نہیں بتایا کہ یہ واقعہ کیسے ہوا یا اس کے پیچھے کون ہے۔ کریمہ بلوچ کی لاش ابھی تک پولیس کی کسٹڈی میں ہے اور خاندان والوں کے حوالے نہیں کی گئی ہے، اس لیے کوئی اندازہ نہیں کہ ان کی موت کیسے واقع ہوئی۔'

بلوچستان سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے گذشتہ دس سال سے زائد عرصے سے کوئٹہ پریس کلب اور کراچی میں علامتی بھوک ہڑتال کرنے والی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'کریمہ بلوچ کینیڈا کے شہر ٹورنٹو سے 20 دسمبر کی دوپہر سے لاپتہ تھیں اور آج 22 دسمبر کو ان کی مسخ شدہ لاش ملی۔'

ان کا کہنا تھا: 'کریمہ بلوچ نہ صرف بلوچستان سے لاپتہ افراد کی تحریک بلکہ بلوچستان کے حقوق کی تحریک کی رول ماڈل تھیں، ان کی ہلاکت سے تحریک کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ کریمہ بلوچ نے بلوچ خواتین کو تحریک میں شامل کیا اور ان کی محنت کی وجہ سے آج بلوچ خواتین تحریک میں سرگرم نظر آتی ہیں'۔ 

ماما قدیر بلوچ نے بتایا کہ کریمہ بلوچ کی دو بہنیں اور ایک بھائی ہیں جبکہ ان کے والد مسقط کے ایک ہسپتال میں نوکری کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا: '2014 میں پاکستانی فورسز نے تمپ میں واقع ان کے گھر کو مسمار کردیا تھا جس کے بعد ان کی والدہ اور دونوں بہنیں کراچی منتقل ہوگئیں تھیں، جبکہ بھائی  دبئی میں  مقیم ہیں۔'

ماما قدیر کے مطابق کریمہ بلوچ نے چند سال قبل حمل حیدر بلوچ نامی ایک نوجوان سے شادی کی تھی، جنہوں نے خود بھی برطانیہ میں پناہ لی ہے۔  

انہوں نے مزید بتایا کہ 2014 میں کریمہ بلوچ نے مقامی خواتین کے ساتھ اپنے گاؤں سے تربت تک لانگ مارچ کیا تھا اور ان کی جدوجہد کے باعث ان کے علاقے میں آج بھی خواتین تحریک کا حصہ ہیں۔ 

'ہم نے بلوچستان سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے 2013 میں لانگ مارچ کیا اور جب ہم کوئٹہ آرہے تھے تو سخت سردی اور بارش کے بعد ہمارے قافلے پر سریاب تھانے کے قریب فائرنگ بھی ہوئی، مگر کریمہ نے ہمیں ہمت دلائی۔ انہوں نے کینیڈا میں بیٹھ کر تحریک کے لیے جو کام کیا وہ کبھی بھی نہیں بھلایا جاسکتا۔'

ماما قدیر بلوچ کے مطابق: 'کریمہ بلوچ کی جدوجہد کے باعث ان کی جان کو پاکستان میں خطرہ تھا تو وہ کینیڈا چلی گئیں مگر وہاں بھی ان کو قتل کردیا گیا۔'

مارچ 2014 میں بلوچستان میں طلبہ کی سرگرم تنظیم بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد (بی ایس او آزاد) کے چیئرمین زاہد بلوچ عرف بلوچ خان کوئٹہ کے سیٹلائٹ ٹاؤن علاقے سے جبری لاپتہ ہوگئے تھے تو کریمہ بلوچ نے بی ایس او کی سربراہی سنبھالی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس وقت کریمہ بلوچ بی ایس او آزاد کی سینیئر وائس چیئرمین کے طور پر کام کر رہی تھیں اور بلوچستان میں طالبات کو بلوچ تحریک میں شامل رکھنے اور احتجاجوں میں شریک کروانے میں ان کا اہم کردار رہا ہے۔ 

ان کے متحرک کردار کے باعث پاکستان حکومت نے 15 مارچ 2013 کو بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کو کالعدم قرار دے کر اس پر پابندی عائد کردی تھی۔  

کریمہ بلوچ کے تین کزنز کے ساتھ متعدد رشتے دار بھی لاپتہ ہوچکے ہیں۔

 اگست 2016 میں بلوچستان کے ضلع خضدار میں علیحدگی پسند رہنماؤں بلوچ رپبلکن آرمی کے رہنما براہمداغ بگٹی اور بلوچ لبریشن آرمی کے سربراہ حربیار مری پر ملک دشمنی اور غداری کے الزامات کے تحت پانچ مختلف مقدمات درج کیے تھے، ان مقدمات میں کریمہ بلوچ کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ 

ان مقدمات میں کہا گیا تھا کہ براہمداغ بگٹی، حربیار مری اور کریمہ بلوچ نے مختلف ٹی وی چینلوں، اخبارات اور سوشل میڈیا پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے اس بیان کے حمایت کی تھی جس میں مودی نے کہا تھا کہ 'اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان بلوچستان اور اپنے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والی مبینہ زیادتیوں کا جواب دے'۔ 

ایمنسٹی انٹرنیشنل ساؤتھ ایشیا سمیت دیگر سماجی اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں نے کریمہ بلوچ کے قتل پر دکھ اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کی فوری اور جامع تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان