پر تشدد واقعات کی لہر کے سائے میں کل سے افغان امن مذاکرات کی بحالی

ستمبر میں افغان حکومت اور طالبان کے مابین شروع ہونے والے مذاکرات کے بعد ابتدا ہی سے افغانستان میں تشدد میں اضافہ دیکھا گیا لیکن اس میں ایک نئے رجحان کا اضافہ ہوا یعنی اعلیٰ سرکاری اہلکاروں، سماجی کارکنوں اور صحافیوں کی ٹارگٹ کلنگ۔

ستمبر 2020 میں دوحہ میں بین الافغان مذاکرات کے آغاز کے پہلے سیشن میں طالبان وفد کی آمد (اے ایف پی)

پانچ جنوری یعنی کل سے قطر میں افغان حکومت اور طالبان کے مابین امن مذاکرات کا ایک نیا دور شروع ہونے جا رہا ہے تاہم ملک میں جاری تشدد کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔

دونوں فریقین کے مابین کئی ماہ تک جاری رہنے والی بات چیت میں کم ہی پیش رفت سامنے آئی ہے یہاں تک کہ انہیں مذاکرات کا ایجنڈا طے کرنے میں بھی طویل عرصہ لگا تھا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق منگل سے بحال ہونے والی بات چیت میں افغان حکومت کے مذاکرات کار مستقل طور پر جنگ بندی اور موجودہ جمہوری نظام کے تحفظ پر زور دیں گے۔

حکومتی مذاکرات کار غلام فاروق مجروح نے اے ایف پی کو بتایا: ’یہ مذاکرات انتہائی پیچیدہ اور صبر آزماں ہوسکتے ہیں۔ لیکن ہمیں امید ہے کہ ہم جلد از جلد کسی نتیجے پر پہنچیں گے کیونکہ لوگ اس خونی جنگ سے تھک چکے ہیں۔‘

دوسری جانب طالبان کے کسی بھی نمائندے نے مذاکرات کی بحالی پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

طالبان اور افغان حکومت کے مابین پہلی براہ راست بات چیت کا آغاز گذشتہ سال ستمبر میں ہوا تھا لیکن بحث و مباحثے اور مذہبی تشریحات پر تنازعات کی وجہ سے یہ جلد ہی تعطل کا شکار ہوگئے تھے۔

واشنگٹن کی جانب سے سفارتی کوشش بالآخر اتفاق رائے کا باعث بنی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ بین الافغان مذاکرات فروری 2020 میں طالبان اور امریکہ کے درمیان اس امن معاہدے کے بعد ممکن ہوئے تھےجس کے تحت امریکہ مئی 2021 تک اپنی تمام افواج کو افغانستان سے نکال لے گا۔

افغان حکومت اور طالبان کے مابین شروع ہونے والے مذاکرات کے بعد ابتدا ہی سے افغانستان میں تشدد میں اضافہ دیکھا گیا لیکن اس میں ایک نئے رجحان کا اضافہ ہوا یعنی اعلیٰ سرکاری اہلکاروں، سماجی کارکنوں اور صحافیوں کی ٹارگٹ کلنگ۔

نومبر سے صوبہ کابل کے نائب گورنر، پانچ صحافیوں اور ایک ممتاز سماجی کارکن کو کابل سے دوسرے شہروں میں قتل کیا جا چکا ہے۔

عہدے داروں نے اس قتل و غارت کا الزام طالبان پر عائد کیا ہے حالانکہ  کچھ حملوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔

افغان نیشنل سکیورٹی کونسل کے مشیر جاوید فیصل کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ’طالبان کا مقصد عوام کو تقسیم کرنا ہے اور ان ہلاکتوں سے وہ حکومت اور سکیورٹی اداروں کے خلاف نفرت اور مایوسی پھیلانا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ ہلاکتیں عوام کو متحد کررہی ہیں۔‘

تھنک ٹینک افغانستان ریسرچ اینڈ ایویلیویشن یونٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر ناشنک موتوانی نے کہا: ’طالبان سیاسی ہلاکتوں کی باضابطہ طور پر ذمہ داری قبول نہیں کریں گے لیکن اس کے باوجود وہ اپنے کیڈر کے سامنے یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ طالبان وہی ہیں اور وہ تبدیل نہیں ہوئے ہیں۔‘

افغانستان کی انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہ احمد ضیا سراج نے رواں ہفتے ارکان پارلیمان کو بتایا کہ 2020 میں طالبان نے ملک بھر میں 18 ہزار سے زیادہ حملے کیے ہیں۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن کے مطابق گذشتہ سال کے پہلے نو مہینوں کے دوران تشدد کے واقعات میں 2177 شہری ہلاک اور 3822 زخمی ہوئے۔

افغان شہری ملک میں بہتر حالات کے خواہاں ہیں لیکن ان مذاکرات کے باوجود انہیں سکیورٹی کے حوالے سے فوری بہتری کی امید نہیں ہے۔

کابل کے رہائشی جمشید محمد نے کہا: ’کابل میں کوئی سکیورٹی نہیں ہے۔ ہم کب تک اپنے پیاروں کو دفناتے رہیں گے؟‘

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا