کیا ڈپٹی کمشنر کو بغاوت کا مقدمہ درج کرنے کا اختیار قانونی ہے؟

خیبر پختونخوا کی حکومت نے تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو بغاوت کے مقدمات درج کرنے کا اختیار دیا ہے تاہم ماہرینِ آئین اور قانون کے مطابق اس میں کئی پیچیدگیاں ہیں۔

پشاور کے ایک پولیس سٹیشن کا بیرونی منظر (فائل تصویر: اے ایف پی)

خیبر پختونخوا کی حکومت نے تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو ریاست کے خلاف بغاوت، انتخابات کے دوران غیر قانونی طریقے سے ووٹ ڈالنے پر مجبور کرنے، مذہبی منافرت پھیلانے اور  غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے  کے ملزمان کے خلاف  حکومت کی طرف سے مقدمات درج کرنے کا اختیار دے دیا ہے۔

صوبائی محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری مراسلے، جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو  کے پاس موجود ہے، میں درج ہے کہ کریمنل کوڈ آف پروسیجر کی دفعہ 196 کے تحت حکومت نے تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو اختیار دیا ہے کہ وہ آئین پاکستان کے چیپٹر چھ اور نو اے، دفعہ 108، دفعہ 153 اے ، دفعہ 294 اے ، دفعہ 295اے  اور دفعہ 505 اے کے تحت جرائم کے مقدمات درج کر سکتے ہیں۔

ڈپٹی کمشنرز کو دیے گئے اضافی اختیارات میں سب سے زیادہ دفعات ریاست اور حکومت کے خلاف بغاوت کے حوالے سے ہیں، جس کا مقدمہ ڈپٹی کمشنرز کی جانب سے اب درج کیا جا سکے گا۔ ان میں بغاوت کی سب سے جانی پہچانی دفعہ 124 اے ہے، جو صوبائی اور وفاقی حکومت کے خلاف بغاوت کے حوالے سے ہے۔

حکومت کی جانب سے یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب گذشتہ ہفتے وزیر داخلہ شیخ رشید نے ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا تھا کہ ریاست کے خلاف بغاوت کے مقدمات 72 گھنٹوں میں درج ہوں گے۔

آئین پاکستان کا چیپٹر چھ ریاست مخالف جرائم کے حوالے سے ہے۔ چیپٹر چھ کی دفعہ 121  میں درج ہےکہ جس کسی نے بھی ریاست یا صوبائی اور وفاقی حکومت کے خلاف جنگ کا اعلان کیا یا ریاست کے خلاف جنگ میں کسی کا ساتھ دیا تو اس کی سزا سزائے موت یا عمر قید ہوگی۔ جبکہ اسی چیپٹر کی دفعہ 123 میں لکھا گیا ہے کہ جس کسی نے بھی پاکستان کے نظریے کے خلاف یا پاکستان کی خود مختاری کے خلاف کوئی اقدام اٹھایا تو ان کی سزا 10 سال تک قید ہوگی۔

اسی چیپٹر میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ جس کسی نے بھی پاکستان کا پرچم غیر قانونی طریقے سے سرکاری عمارت سے ہٹایا تو اس کی سزا تین سال تک قید ہوگی اور ساتھ میں جرمانہ بھی ہوگا۔ دفعہ 124 میں لکھا گیا ہے کہ صدر پاکستان، گورنر وغیرہ  کی توہین کی سزا سات سال تک قید اور جرمانہ ہوگا۔

دفعہ 124 اے میں درج ہے کہ اگر کسی نے زبانی، تحریری یا علامتی طور پر صوبائی یا وفاقی حکومت کے خلاف نفرت پھیلائی تو ان کو تین سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ آئین پاکستان کی اس شق پر بارہا ناقدین کی جانب سے تنقید کی جاتی رہی ہے  کہ حکومت اس دفعہ کو اپوزیشن جماعتوں کے خلاف استعمال کرتی ہے۔

ڈپٹی کمشنرز کو مذہبی منافرت پھیلانے کے جرائم پر مقدمات درج کرنے کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔ آئین پاکستان کی دفعہ 153 اے میں درج ہے کہ  اگر کسی نے مذہبی گروپ یا فرقے کے خلاف نفرت پھیلائی یا نفرت پھیلانے کے سلسلے میں مدد کی تو ان کو پانچ سال قید کی ہو سکتی ہے اور ڈپٹی کمشنرز کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ایسے مقدمات کا اندراج کریں۔

اسی طرح انتخابات کے حوالے سے بھی ڈپٹی کمشنرز کو اختیار دیا گیا ہے کہ اگر انتخابات کے دن کسی نے ووٹ ڈالنے، انتخابی عمل میں مداخلت یا کسی کو زبردستی اپنی حمایت میں ووٹ ڈالنے پر مجبور کیا تو ان کے خلاف مقدمہ درج ہوگا۔

ڈپٹی کمشنرز کو یہ اختیارات تو دے دیے گئے ہیں تاہم ان میں ایک قانونی پیچیدگی موجود ہے۔ آئین پاکستان کی دفعہ 196 کے تحت ریاست کے خلاف بغاوت کے مقدمات صوبائی یا وفاقی حکومت کی طرف سے درج کیے جا سکتے ہیں، تاہم اسی دفعہ میں یہ بھی درج ہے کہ دونوں حکومتیں کسی نمائندے کو یہ اختیارات تفویض کرسکتی ہیں۔

تاہم قانونی ماہرین سمجھتے ہیں کہ 2016 میں سپریم کورٹ کے مصطفیٰ ایمپیکس کیس کے سلسلے میں جو فیصلہ محفوظ کیا گیا، اس میں یہ واضح طور لکھا گیا کہ کسی بھی فیصلے، مراسلے یا نوٹیفکیشن کی وفاقی یا صوبائی کابینہ سے منظوری ضروری ہوگی۔ مصطفیٰ ایمپیکس کیس 2013 میں ایک کمپنی کی جانب سے اس وقت درج کیا گیا تھا جب عمران خان نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے ٹیکسٹائل صنعت کو دیے گئے سیلز ٹیکس میں چھوٹ واپس لی تھی۔

اس کیس کے فیصلے میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے واضح کیا تھا کہ وزیر اعظم کابینہ کے ایک رکن ہیں اور وہ حکومت کی طرف سے کوئی بھی فیصلہ اکیلے نہیں کرسکتے بلکہ ان کو کابینہ سے منظوری لینا ضروری ہوگی، یہی پیچیدگی غداری کے مقدمات کے اندراج میں بھی موجود ہے۔

'حکومت کے خلاف بغاوت کی تعریف کس طرح کی جائے گی؟'

فیصل شہزاد پشاور کے اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور کریمنل جسٹس سسٹم کے معاملات پر عبور رکھتے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آئین میں موجود بغاوت کے مقدمات کے اندراج کا اختیار صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے پاس ہے اور ڈپٹی کمشنرز یا کسی اور کو یہ اختیار تفویض کرنا ایک قانونی پیچیدگی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس میں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کا مطلب وزیر اعظم اور ان کی کابینہ جبکہ صوبائی حکومت کا مطلب وزیر اعلیٰ اور ان کی کابینہ ہے، لہذا اس قسم کے مقدمات کے اندراج  کی منظوری صوبائی اور وفاقی کابینہ سے لینی ضروری ہوگی۔

فیصل شہزاد کے مطابق: 'ڈپٹی کمشنرز کو ان معاملات کی سمجھ ہی نہیں ہے تو کیسے یہ اختیارات ان کے سپرد کیے جا سکتے ہیں۔ اگر واقعی حکومت ڈپٹی کمشنرز کو یہ اختیارات دیتی ہے تو اس کے لیے کریمنل پروسیجر کوڈ  کی دفعہ 196 میں ترمیم کرنی پڑے گی جو بہت مشکل کام ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ڈپٹی کمشنرز کی جانب سے ایسے مقدمات کو عدالت میں چیلنج کیا جائے گا۔'

انہوں نے بغاوت کے مقدمات کے حوالے سے بتایا کہ اختیارات کی سپردگی میں پیچیدگی تو ایک طرف لیکن ابھی تک یہ بھی واضح نہیں ہوا ہے کہ حکومت کے خلاف بغاوت کی تعریف کس طرح کی جائے گی۔

بقول فیصل: 'ایسی کئی مثالیں موجود ہیں، جن میں بغاوت کا مقدمہ درج ہوا ہے، تاہم عدالت کی جانب سے ایسے مقدمات خارج کردیے گئے کیونکہ ان میں یہ واضح نہیں ہوتا کہ بغاوت کی تعریف کیا ہے کیونکہ بعض دفعہ تو حکومتیں یا  ریاستی ادارے اپنے اوپر تنقید کو بھی بغاوت کا نام دیتے ہیں۔'

اکتوبر 2020 میں یہی مسئلہ اس وقت سامنے آیا تھا، جب سابق وزیراعظم نواز شریف سمیت اپوزیشن جماعتوں کے کچھ رہنماؤں پر لاہور کے شاہدرہ پولیس سٹیشن میں ایک شہری کی جانب سے غداری کے  مقدمات درج کروائے گئے، تاہم میڈیا پر معاملہ سامنے آنے کے بعد وفاقی حکومت نے ایسا کوئی بھی مقدمہ درج کروانے سے لاعلمی کا اظہار کیا۔

عدالت نے ان مقدمات کو بعد میں اسی وجہ سے خارج کردیا تھا کیونکہ آئین پاکستان کی دفعہ 196 کے تحت ایسے مقدمات کے اندراج کا اختیار صرف حکومت کے پاس ہے اور ان مقدمات کے اندراج کی منظوری مصطفیٰ ایمپیکس کیس کے فیصلے کی رُو سے وفاقی یا صوبائی کابینہ کی منظوری سے لی جائے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فیصل شہزاد نے بتایا کہ کریمینل پروسیجر کوڈ 1860 میں شامل دفعہ 124 اے، جو حکومت کے خلاف بغاوت سے متعلق ہے، ایک کالونیل قانون ہے جو انگریزوں نے بنایا تھا، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ برطانیہ اور انڈیا نے یہ قانون ختم کردیا ہے لیکن پاکستان میں اب بھی موجود ہے۔

انہوں نے بتایا: 'یہ قانون تب نافذ ہو سکتا ہے، جب ملک میں بادشاہت ہو۔ جمہوریت تو نام ہی تنقید کا ہے اور جمہوریت تو شروع ہی تنقید پر اور ختم بھی تنقید پر ہوتی ہے۔'

تاہم دوسری جانب سپریم کورٹ کے وکیل فہیم ولی نے انڈپینڈنٹ اردو  کو بتایا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے کسی حکومتی نمائندے کو کابینہ کی منظوری کے بعد اختیار دیا گیا ہے تو وہ نمائندہ مزید نچلی سطح پر گریڈ 17 کے ملازم کو بغاوت کے مقدمات درج کرنے کا اختیار دے سکتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا: 'کابینہ سے منظوری نہ لینے کی صورت میں یہ غیرقانونی ہے کہ حکومت کسی حکومتی نمائندے کو بغاوت کے مقدمات درج کرنے کا اختیار دے کیونکہ اختیار دینے کا عمل کابینہ کی منظوری سے مشروط ہے۔'

کیا خیبر پختونخوا  حکومت نے ڈپٹی کمشنرز کو اختیارات دینے کا فیصلہ کابینہ سے منظور کرایا ہے؟ اس حوالے سے صوبائی مشیر اطلاعات کامران بنگش نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ قانون 2014 میں پاس ہوا تھا اور ابھی اس کو عملی شکل پہناکر ڈپٹی کمشنرز کو خصوصی اختیارات دیے گئے ہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ پاکستان میں حکومت مخالف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے جلسے ہو رہے ہیں، لہذا یہ فیصلہ ان کے رہنماؤں کے خلاف مقدمات درج کرنے کے لیے تو نہیں کیا گیا؟ تو انہوں نے جواب دیا: 'اس فیصلے کا موجودہ صورت حال سے کوئی تعلق نہیں ہے۔'

اس فیصلے کی قانونی پیچیدگیوں کے حوالے سے کامران بنگش نے سیکرٹری محکمہ داخلہ سے رابطہ کرنے کو کہا تاہم سیکرٹری محکمہ داخلہ نے بذریعہ وٹس ایپ بھیجے گئے پیغامات کا کوئی جواب نہیں دیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان