سانپ کی طرح انسان بھی زہریلے ہو سکتے ہیں: نئی تحقیق

بعض ماحولیاتی تبدیلیوں کی صورت میں انسان اور دوسرے ممالیہ جانور زہریلا لعاب پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

جو جانور لعاب تیار کر سکتے ہیں، ان کے اندر ممکنہ طور پر زہر تیار کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ (پیکسلز)

عین ممکن ہے آپ نے سری دیوی کا ’میں ناگن تو سپیرا‘ پر کیا گیا رقص دیکھا ہو یا پرانی فلم ’ناگن‘ کے گیت ’من ڈولے میرا تن ڈولے‘ کی مشہور زمانہ بین سن رکھی ہو۔ اور اگر آپ بالی وڈ یا لالی وڈ فلموں کے شیدائی ہوں تو آپ نے کوئی نہ کوئی ایسسی فلم ضرور دیکھی ہو گی جن میں انسان سانپ کا روپ دھار لیتے ہیں یا کوئی ناگن انسان بن جاتی ہے اور اس کے اندر اب بھی زہر موجود ہوتا ہے اور اس کے قریب آنے والا ہیرو موت کا شکار ہو سکتا ہے۔

جدید سائنس کے مطابق ان فلموں کی طرح انسان سانپ یا سانپ انسان نہیں بن سکتا، البتہ تازہ ترین تحقیق میں کہا گیا ہے کہ انسان کے اندر بھی مخصوص حالات میں زہریلا بننے کی صلاحیت موجود ہے۔  

سانپ اور بچھو کے علاوہ بھی کئی جانور ایسے ہیں جنہوں نے ارتقا کے عمل سے گزر کر زہریلے پن کی خصوصیت حاصل کی ہے تاکہ دشمنوں سے اپنا دفاع کر سکیں اور دوسرے جانوروں کو شکار کر سکیں۔ حالیہ تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ نہ صرف انسان بلکہ دوسرے ممالیہ جانوروں کے اسی قسم کے جینز موجود ہیں جو سانپ میں پائے جاتے ہیں۔

جاپان کی اوکیناوا یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے سائنس دان اور اس تحقیق کے شریک مصنف اگنیش باروا نے ’لائیو سائنس‘ کو بتایا کہ ’بنیادی طور پر ہمارے اندر (زہر بنانے کے) تمام ضروری اجزا موجود ہیں۔

سائنس دانوں کے مطابق زہر انہی غدودوں میں پیدا ہوتا ہے جن کے اندر انسانوں میں منہ کا لعاب تیار ہوتا ہے۔ جو جانور لعاب تیار کر سکتے ہیں، ان کے اندر ممکنہ طور پر زہر تیار کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سائنسی جریدے ’پی این اے ایس‘ میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق بعض ماحولیاتی تبدیلیوں کی صورت میں انسان اور دوسرے ممالیہ جانور زہریلا لعاب پیدا کر سکتے ہیں۔

سائنس دانوں نے 1980 کی دہائی میں تجربات کے دوران دریافت کیا تھا کہ بعض قسموں کے چوہوں کا لعاب جب انجیکشن کے ذریعے دوسرے چوہوں کو لگایا جائے تو وہ زہریلا ثابت ہوتا ہے۔

اگنیش کہتے ہیں: ’اگر ماحول بدل جائے اور وہ چوہے جن کے لعاب میں زہریلی پروٹینز موجود ہوں ان کی نسل زیادہ کامیابی سے پھلنے پھولنے لگے تو چند ہزار سالوں میں زہریلے چوہے وجود میں آ جائیں گے۔‘

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر اسی قسم کی صورتِ حال انسانوں کو درپیش ہو جائے تو وہ بھی مخصوص حالات میں زہریلے ہو سکتے ہیں، تاہم اس کا امکان کم ہے۔

اس تحقیق کے دوران سائنس دانوں نے زہر کی بجائے تین ہزار کے قریب ان جینز پر توجہ مرکوز کی جو خود زہر نہیں بناتے بلکہ زہر بنانے والے جینز کی مدد کرتے ہیں۔

سب سے پہلے انہوں نے ’ہابو‘ نامی زہریلے سانپ کے ڈی این اے کا جائزہ لیا اور دیکھا کہ اس میں کون سے ایسے جین ہیں جو زہر بنانے والے جینز کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے اس کا تقابل دوسرے جانوروں سے کیا۔

سائنس دانوں کو پتہ چلا کہ انسانوں کے منہ میں لعاب بنانے والے جینز سانپ کے جینز سے بہت ملتے جلتے تھے۔ البتہ انسانوں میں یہ جین لعاب کے اندر موجود پروٹینز تیار کرتے ہیں جو خوراک کو ہضم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔

سائنس دانوں کے مطابق دونوں نظاموں کی مشینری ایک جیسی ہی ہے۔ مزید یہ کہ انسان کے لعاب کے غدود ایک پروٹین تیار کرتے ہیں جو زہریلے جانور بھی بناتے ہیں۔ اس پروٹین کا نام کیلی کرین ہے اور یہ خوراک میں موجود پروٹینز کو تحلیل کرنے میں مدد دیتی ہے۔

آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف کوین لینڈ کے بائیو کیمسٹ اور زہروں کے ماہر برائن فرائی نے کہا کہ ’یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ کیلی کرین مختلف جانوروں میں پائے جانے والے زہروں کا حصہ ہے، کیوں کہ چاہے کسی بھی شکل میں ہو، یہ بہت فعال انزائم ہے اور یہ بہت سے کام سرانجام دے سکتی ہے۔‘

ارتقائی نظریے کے مطابق کروڑوں سال قبل ممالیہ جانوروں اور سانپوں کا جدِ امجد ایک ہی تھا، اس لیے ان کے منہ کے اندر لعاب بنانے کا نظام بھی ایک ہی تھا۔ بعد میں ارتقائی مراحل سے گزرتے ہوئے سانپوں اور دوسرے زہریلے جانوروں کا لعاب اسی مشینری کو استعمال کرتے ہوئے زہریلا ہوتا چلا گیا، جب انسان اور دوسرے ممالیہ جانوروں میں یہ صلاحیت پیدا نہیں ہوئی، البتہ اس کی بنیادی مشینری ان میں بھی وہی ہے۔

   

  

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق